قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّؓ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2542.02. حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، - قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى - حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِذَا أَتَى عَلَيْهِ أَمْدَادُ أَهْلِ الْيَمَنِ، سَأَلَهُمْ: أَفِيكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ؟ حَتَّى أَتَى عَلَى أُوَيْسٍ فَقَالَ: أَنْتَ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَانَ بِكَ بَرَصٌ فَبَرَأْتَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: لَكَ وَالِدَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ، مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ» فَاسْتَغْفِرْ لِي، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: الْكُوفَةَ، قَالَ: أَلَا أَكْتُبُ لَكَ إِلَى عَامِلِهَا؟ قَالَ: أَكُونُ فِي غَبْرَاءِ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيَّ. قَالَ: فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ حَجَّ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ، فَوَافَقَ عُمَرَ، فَسَأَلَهُ عَنْ أُوَيْسٍ، قَالَ: تَرَكْتُهُ رَثَّ الْبَيْتِ، قَلِيلَ الْمَتَاعِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ، إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ» فَأَتَى أُوَيْسًا فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ، فَاسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ، فَاسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: لَقِيتَ عُمَرَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، فَفَطِنَ لَهُ النَّاسُ، فَانْطَلَقَ عَلَى وَجْهِهِ، قَالَ أُسَيْرٌ: وَكَسَوْتُهُ بُرْدَةً، فَكَانَ كُلَّمَا رَآهُ إِنْسَانٌ قَالَ: مِنْ أَيْنَ لِأُوَيْسٍ هَذِهِ الْبُرْدَةُ

مترجم:

2542.02.

زراره بن اوفی نے اسیر بن جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جب اہل یمن میں سے کوئی (جہاد میں حصہ لینے والے) دستے آتے تو وہ ان سے پوچھتے: تم میں اویس بن عامر بھی ہیں؟ یہاں تک کہ وہ اویس سے مل گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے (ان سے) کہا: آپ اویس بن عامر ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، پوچھا : کیا آپ مراد (کے قبیلے اور) اس کے بعد قرن (کی شاخ) سے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، کہا: کیا آپ کے برص (کی بیماری) تھی، پھر ٹھیک ہو گئے۔ بس ایک  درہم کے برابر جگہ رہ گئی؟ کہا: ہاں، کہا: آپ کی والدہ ہیں؟ کہا: ہاں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے: ’’تمہارے پاس اہل یمن کے دستوں کے ہمراہ اویس بن عامر آئے گا۔ وہ قبیلہ مراد، پھر شاخ قرن سے ہو گا، اسے برص کی بیماری ہوئی ہو گی، پھر ایک درہم کی جگہ چھوڑ کر باقی ٹھیک ہو گئی ہو گی، اس کی والدہ ہے وہ اس کا پورا فرمانبردار ہے، اگر وہ اللہ پر (کسی کام کی) قسم کھالے تو وہ اسے پورا کر دے گا۔ اگر تم یہ کر سکو گے کہ (تمہاری درخواست پر) تمہارے لیے بخشش کی دعا کرے تو یہ (درخواست) کر لینا۔‘‘ اس لیے (اب) تم میرے لیے بخشش کی دعا کرو توانہوں نے ان کے لیے بخشش کی دعا کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا: آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ کہا: کوفہ (کی چھاؤنی) میں۔ انہوں نے کہا: کیا میں تمہارے لیے وہاں کے عامل کو خط نہ لکھ دوں؟ کہا: مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ خاک نشین (عام) لوگوں میں رہوں۔ کہا: جب اگلا سال آیا تو ان (قرنیوں) کے اشراف میں سے ایک شخص حج کےلیے آیا، وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ملا تو آپ نے اس سے اویس رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا: میں اسے ایک بوسیدہ گھر اور تھوڑی سے پونچی کے ساتھ چھوڑ کر آیا ہوں ۔ (حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ  نے ) کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے: ’’تمہارے پاس اویس بن عامر یمن کے دستوں کے ہمراہ آئے گا، وہ قبیلہ مراد، پھر اس کی شاخ قرن سے ہے، اسے برص کی بیماری تھی، جو ایک درہم کی جگہ چھوڑ کر ساری ٹھیک ہو گئی ہے۔ اس کی بس والدہ ہے جس کا وہ بہت فرمانبردار ہے۔ اگر وہ اللہ پر (کسی کام کی) قسم کھالے توو ہ اسے پورا فرما دے گا۔ اگر تمہارے بس میں ہو کہ وہ تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے تو (دعا کی درخواست) کر لینا۔‘‘ وہ حضرت اویس کے پاس آیا اور ان سے کہا: میرے لیے مغفرت کی دعا کر دو۔ انہوں نے کہا: تم ابھی ایک نیک سفر سے آئے ہو، تم میرے لیے دعا کرو۔ اس شخص نے (پھر) کہا: میرے لیے بخشش کی دعا کر دیں۔ انہوں نے کہا: تم ابھی نیک سفر سے آئے ہو، تم میرے لیے بخشش کی دعا کرو، پھر (اس کا اصرار دیکھا تو) پوچھا: تم حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ملے تھے؟ اس نے کہا: ہاں، توانہوں نے اس کے لیے مغفرت کی دعا کی، پھر لوگ ان کے بارے میں جان گئے تو وہ کسی طرف چلے گئے۔ اُسیر نے کہا: میں نے انھیں ایک چادر اڑھائی تھی۔ جب بھی کوئی انسان اسے دیکھتا تو پوچھتا: اویس کے پاس یہ چادر کہاں سے آئی؟ (وہ ایسے تھے کہ ایک مناسب چادر بھی ان کے پاس ہونا باعثِ تعجب تھا۔)