تشریح:
فائدہ:
رسول اللہ ﷺ کا مقصود یہ ہےکہ ایسے معاملات میں حتمی فیصلے سے گریز کیا جائے ۔ ایک سلیم الفطرت بچہ اور اس کے مقابلے میں ایسا بچہ کہ نسل در نسل اس کے آباء و اجداد کے ظلم و عدوان کی بنا پر انتہائی نو عمری میں اس کے اندر بھی یہ رجحانات جگہ پا چکے ہیں تو دونوں کا انجام ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ کفروگناہ کے عملی ارتکاب سے پہلے سزا نہیں ملے گی، لیکن سزا نہ ملنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جنت کے انعام کا بھی حقدار ہو جائے گا۔ وہ کہاں ہوگا؟ کس مرتبے پر فائز ہوگا؟ کیسی زندگی گزارے گا؟ اس کا فیصلہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اس کی باریکیاں ضروری نہیں کہ انسان کی سمجھ میں آ جائیں۔ جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ کم سنی میں مر جانے والے بچوں کو سزا نہیں ملے گی۔ بعض نے یہ کہا: ایسے بچے جنت میں جائیں گے۔ بعض نے کہا: وہاں بلند مومنوں کے خاندانوں میں شامل ہو کر ان کی خدمت کریں گے۔ اور بہت اچھی زندگی گزاریں گے۔ یہ تو آخرت کی بات ہے۔ جہاں تک دنیوی احکام کا تعلق ہے کافروں کے بچوں پر تقریباً اسی طرح احکام لاگو ہوں گے۔ جو ان کے ماں باپ پر ہوتے ہیں۔ اگر کافر جنگوں کے دوران میں مسلمانوں اور ان کے بچوں کو غلام بنا رہے ہوں تو کافروں کے بچوں کو بھی غلام بنایا جائے گا۔ لیکن قیامت کے روز آخری فیصلہ ان کے ایمان اور عمل کے مطابق ہوگا۔