باب: جس نے عاشورہ کے دن میں (کچھ)کھالیا تووہ اپنے دن کے باقی حصے میں (کھانے سے )رک جائے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Whoever eats on'Ashura, let him refrain (from eating) for the rest of the day)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2722.
ابو معشرعطار نے خالد بن ذکوان سے روایت کی، کہا: میں نے ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے عاشورہ کے روزے کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے انصار کی بستیوں میں اپنے پیام رساں بھیجے۔ اس کے بعد بشر کی حدیث کی مانند حدیث بیان کی، البتہ انہوں نے کہا ان کے لیے روئی کا کھلونا بنا لیتے، ہم اس کو اپنے ساتھ لے جاتے جب وہ ہم سے کھانا مانگتے، ہم انکو وہ کھلونا دے دیتے جو ان کو مصروف کر دیتا، یہاں تک کہ وہ اپنا روزہ پورا کرلیتے۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
ابو معشرعطار نے خالد بن ذکوان سے روایت کی، کہا: میں نے ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے عاشورہ کے روزے کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے انصار کی بستیوں میں اپنے پیام رساں بھیجے۔ اس کے بعد بشر کی حدیث کی مانند حدیث بیان کی، البتہ انہوں نے کہا ان کے لیے روئی کا کھلونا بنا لیتے، ہم اس کو اپنے ساتھ لے جاتے جب وہ ہم سے کھانا مانگتے، ہم انکو وہ کھلونا دے دیتے جو ان کو مصروف کر دیتا، یہاں تک کہ وہ اپنا روزہ پورا کرلیتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
خالد بن ذکوان رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جب ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عاشورہ کے روزہ کے بارے میں پوچھا؟ انھوں نے بتایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارکی بستیوں میں اپنے پیغام بر بھیجے بشر کی طرح حدیث بیان کی، بس اتنا فرق ہے کہ اس نے کہا: ہم ان کے لیے روئی کی گڑیا بناتے اور اسے اپنے ساتھ لے جاتے تو جب وہ ہم سے کھانا مانگتے تو ہم انہیں وہ گڑیا غافل کرنے کے لیے دے دیتے تاکہ وہ اپنا روزہ پورا کرلیں یا حتی کہ وہ اپنا روزہ پورا کر لیتے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت سلمہ بن اکوع اور حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آمد کے بعد، جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور اس کا مسلمانوں کو عمومی حکم دینے کے لیے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جہاں انصار رہتے تھے یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہو، وہ آج کے دن روزہ رکھیں اور جنھوں نے کچھ کھا پی لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصے میں کچھ نہ کھائیں پئیں، بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں اور پھر انصار نے اس کا اس قدراہتمام کیا کہ انہوں نے چھوٹے بچوں کو بھی روزے رکھوائے اور ان کو مشغول اور مصروف کرنے کے لیے تاکہ وہ کھانے پر اصرار نہ کریں، روئی کے کھلونے تیار کر کے ان کو بہلایا، احناف نے اس تاکیدی حکم سے عاشورہ کی فرضیت پر استدلال کیا ہے اور اس سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ فرض روزے کے لیے بھی رات کو نیت کرنا ضروری نہیں ہے، باقی ائمہ کے نزدیک فرض روزے کے لیے رات کو نیت ضروری ہے اور اگرعاشورہ کا روزہ فرض ہوتا تو اس کی بھی رات کو نیت کی جاتی، اس کی تاکید اور اہتمام کا لوگوں کو پہلے پتہ ہی نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے بعد اس کا اعلان کروایا، اس لیے اس کی نیت رات کو ممکن نہ تھی۔ اس لیے اس سے صرف اس قدر بات ثابت ہو چکی ہے، اگر کوئی رات بھر سویا رہا، طلوع فجر کے بعد بیدار ہوا تو وہ اس طرح روزہ رکھ سکتا ہے جب اسے یہ پتہ چلے آج روزہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Khalid bin Dhakwan reported: I asked Rubayyi' daugther of Mu'awwidh about fasting on the day of 'Ashura. Thereupon she said: The Messenger of Allah (ﷺ) (may peace he upon him) sent his messenger to the villages of the Ansar, and the rest of the hadith is the same (but with this variation that one of the Companions) said: "We used to make toys out of wool and took (them to the mosque) along with us. When they (the children) asked us for food, we gave them these toys to play with, and these made them forgetful till they completed their fast."