تشریح:
فائدہ:
بارہ منافقوں کا یہ گروہ انتہائی شریر لوگوں پر مشتمل تھا جس طرح اگلی حدیث کے الفاظ ہیں: (حَرْبٌ لِلّٰهِ وَ لِرَسُوْلِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَ يَوم يَقُوْمُ الْاَشْهَاد) ان لوگوں کی زندگی کا مقصود اسلام کا لبادہ اوڑھ کر دنیا میں بھی اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرنا تھا اور قیامت کے روز بھی یہ اپنے عناد کے مؤقف پر قائم رہیں گے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی مسند (5/453) میں حضرت ابو طفیل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس ہوئے تو آپ ﷺ نے ایک اعلان کرنے والے کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ رسول اللہ مدینہ کے راستے میں واقع عقبہ (تنگ گھاٹی) کی طرف سے جا رہے ہیں، کوئی اور یہ راستہ اختیار نہ کرے جس طرح اگلی حدیث میں ہے۔ مقصود غالباً یہ تھا کہ آپ واپسی کے راستے والے کم پانی کے چشمے پر باقی سارے لشکر سے پہلے پہنچ کر اس میں برکت کی دعا فرمائیں۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کے آگے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ چل رہے تھے اور آپ کے پیچھے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ اچانک پیچھے سے ڈھاٹے باندھے ہوئے سواروں کا ایک گروہ آیا۔ وہ اس تنگ راستے پر حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ کو دھوکا دے کر آگے نکلنا اور اچانک رسول اللہ ﷺ پر حملہ آور ہونا چاہتے تھے۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ ان کی سواریوں کے منہ پر مارتے اور انہیں پیچھے رکھنے کی کوشش میں لگ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے حذیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: ’’اونٹ کی مہار کو کھینچو اور اسے تیز چلاؤ۔‘‘ یہاں تک کہ رسولﷺ اللہ گھاٹی کی اترائی پر پہنچ گئے اور وہاں پہنچ کر سواری سے اتر گئے۔ اتنے میں عمار بھی واپس آگئے۔ آپ ﷺنے دریافت فرمایا: ’’عمار! کیا تم نے ان لوگو ں کو پہچانا؟‘‘ انھوں نے کہا: میں نے عام سواریوں کو پہچانا، ان لوگو ں نے جو ان پر سوار تھے، ڈھاٹے باندھ رکھے تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا: تمہیں پتہ چلا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ انھوں نے کہا: اللہ اور اسکے رسول ﷺزیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ان کا اردہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے خلاف کوئی چال چلیں۔ اگلی حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ منافقوں کے اس گروہ نے اس منصوبے میں ناکام ہونے کے بعد پانی کے چشمے کے حوالے سے رسولﷺ کے اس حکم کی خلاف ورزی کی ٹھانی جس کا اعلان کیا گیا تھا۔ چنانچہ یہ گھاٹی سے پیچھے ہو کرتیز رفتاری کے ساتھ آپﷺ سے پہلے اس پانی پر پہنچ گئے۔ اعلان نا سننے والے تین اور لوگ بھی بے خبری میں ان کے ساتھ وہاں پہنچ گے، ان سب نے جا کر پانی استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح عقبہ کی رات رسولﷺکی نافرمانی کرنے والوں کی کل تعداد پندرہ ہو گئی۔ ان میں سے تین کا عذر قبول کر لیا گیا جو بے خبری میں وہاں پہنچے تھے باقی بارہ پر رسولﷺنے لعنت فرمائی۔ وہ پکے منافق تھے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کو رسولﷺ نےان کے ناموں سے آگاہ فرما دیا تھا اور ساتھ ہی انہیں صیغہ راز میں رکھنے کی ہدایت بھی فرما دی تھی۔