صحیح مسلم
15. کتاب: روزے کے احکام و مسائل
35. باب: اس شخص کے لیے سال بھر کے روزے رکھنے کی ممانعت جسے اس سےنقصان پہنچنے یا وہ اس کی وجہ سے کسی حق کو ضائع کرے ‘یا عید ین اور ایام تشریق کاٰ روزہ بھی نہ چھوڑے ‘اور ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن نہ رکھنے کی فضیلت
صحيح مسلم
15. كتاب الصيام
35. بَابُ النَّهْيِ عَنْ صَوْمِ الدَّهْرِ لِمَنْ تَضَرَّرَ بِهِ أَوْ فَوَّتَ بِهِ حَقًّا أَوْ لَمْ يُفْطِرِ الْعِيدَيْنِ وَالتَّشْرِيقَ، وَبَيَانِ تَفْضِيلِ صَوْمِ يَوْمٍ، وَإِفْطَارِ يَوْمٍ
Muslim
15. The Book of Fasting
35. Chapter: Prohibition of Fasting for a lifetime for the one who will be harmed by that or who will neglect other duties, or does not break his fast on the two 'Ids or during the days of At-Tashriq; It is better to fast alternate days
باب: اس شخص کے لیے سال بھر کے روزے رکھنے کی ممانعت جسے اس سےنقصان پہنچنے یا وہ اس کی وجہ سے کسی حق کو ضائع کرے ‘یا عید ین اور ایام تشریق کاٰ روزہ بھی نہ چھوڑے ‘اور ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن نہ رکھنے کی فضیلت
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Prohibition of Fasting for a lifetime for the one who will be harmed by that or who will neglect other duties, or does not break his fast on the two 'Ids or during the days of At-Tashriq; It is better to fast alternate days)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2794.
ابو قلابہ (بن زید بن عامر الجرمی البصری) نے کہا: مجھے ابوملیح نے خبر دی، کہا: میں تمھارے والد کے ہمراہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا تو انھوں نے ہمیں حدیث سنائی کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے میرے روزوں کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے، میں نے آپ ﷺ کے لئے چمڑے کا ایک تکیہ رکھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ آپ ﷺ زمین پر بیٹھ گئے اور تکیہ میرے اور آپ ﷺ کے درمیان میں آ گیا، آپ ﷺ نے مجھے فرمایا: ’’کیا تمھیں ہر مہینے میں سے تین دن (کے روزے) کافی نہیں؟‘‘ میں نے عرض کی اللہ کے رسول ﷺ (اس سے زیادہ)، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پانچ۔‘‘ میں نے عرض کی، اللہ کے رسول ﷺ (اس سے زیادہ) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سات۔‘‘ میں نے عرض کی، اللہ کے رسول ﷺ (اس سے زیادہ) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نو۔‘‘ میں نے عرض کی، اللہ کے رسول ﷺ! (اس سے زیادہ)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’گیارہ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’داود علیہ السلام کے روزوں سے بڑھ کر کوئی ر وزے نہیں ہیں، آدھا زمانہ، ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن نہ رکھنا۔‘‘
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
ابو قلابہ (بن زید بن عامر الجرمی البصری) نے کہا: مجھے ابوملیح نے خبر دی، کہا: میں تمھارے والد کے ہمراہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا تو انھوں نے ہمیں حدیث سنائی کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے میرے روزوں کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے، میں نے آپ ﷺ کے لئے چمڑے کا ایک تکیہ رکھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ آپ ﷺ زمین پر بیٹھ گئے اور تکیہ میرے اور آپ ﷺ کے درمیان میں آ گیا، آپ ﷺ نے مجھے فرمایا: ’’کیا تمھیں ہر مہینے میں سے تین دن (کے روزے) کافی نہیں؟‘‘ میں نے عرض کی اللہ کے رسول ﷺ (اس سے زیادہ)، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پانچ۔‘‘ میں نے عرض کی، اللہ کے رسول ﷺ (اس سے زیادہ) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سات۔‘‘ میں نے عرض کی، اللہ کے رسول ﷺ (اس سے زیادہ) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نو۔‘‘ میں نے عرض کی، اللہ کے رسول ﷺ! (اس سے زیادہ)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’گیارہ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’داود علیہ السلام کے روزوں سے بڑھ کر کوئی ر وزے نہیں ہیں، آدھا زمانہ، ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن نہ رکھنا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو قلابہ بیان کرتے ہیں مجھے ابو المسیح نے بتایا کہ میں تیرے باپ کے ساتھ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا تو اس نے ہمیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میرے روزوں کا ذکر کیا گیا تو آپﷺ میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے آپﷺ کے لیے چمڑے کا ایک تکیہ پیش کیا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ آپﷺ زمین پر فروکش ہو گئے اور تکیہ میرے اور آپﷺ کے درمیان ہو گیا تو آپﷺ نے مجھے فرمایا: کیا تجھے ہر ماہ تین روزے کفایت نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! (یہ کافی نہیں ہیں) آپ نے فرمایا: ’’پانچ‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپﷺ نے فرمایا: ’’سات۔‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپﷺ نے فرمایا: ’’نو۔‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپﷺ نے فرمایا: ’’گیارہ‘‘میں نے عرض کیا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’داؤدی روزوں سے اوپر کوئی روزہ نہیں، آدھا زمانہ، ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Qatadah (RA) reported that Abu al Malih informed me: I went along with your father to 'Abdullah bin 'Amr (RA), and he narrated to us that the Messenger of Allah (ﷺ) was informed about my fasting and he came to me, and I placed a leather cushion filled with fibre of date-palms for him. He sat down upon the ground and there was that cushion between me and him, and he said to me: Does three days' fasting in a month not suffice you? I said: Messenger of Allah, (I am capable of observing more fasts). He said: (Would) five (not suffice for you)? I said: Messenger of Allah, (I am capable of observing more fasts) He said: (Would) seven (fasts) not suffice you? I said: Messenger of Allah, (I am capable of observing more fasts). He (the Holy Prophet) then said: (Would) nine (fasts not suffice you)? I said: Messenger of Allah, (I am capable of observing more fasts). He said: (Would) eleven (fasts not suffice you)? I said: Messenger of Allah, (I am capable of observing more fasts than these). Thereupon the Apostle of Allah (ﷺ) said: There is no fasting (better than) the fasting of David which comprises half of the age, fasting a day and not fasting a day.