قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ صِفَاتِ الْمُنَافِقِينَ وَأَحْكَامِهِمْ (بَابُ الدُّخَانِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2798.01. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَكِيعٌ ح و حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ح و حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ كُلُّهُمْ عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ جَاءَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ رَجُلٌ فَقَالَ تَرَكْتُ فِي الْمَسْجِدِ رَجُلًا يُفَسِّرُ الْقُرْآنَ بِرَأْيِهِ يُفَسِّرُ هَذِهِ الْآيَةَ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ قَالَ يَأْتِي النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ دُخَانٌ فَيَأْخُذُ بِأَنْفَاسِهِمْ حَتَّى يَأْخُذَهُمْ مِنْهُ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَنْ عَلِمَ عِلْمًا فَلْيَقُلْ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلْ اللَّهُ أَعْلَمُ مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ اللَّهُ أَعْلَمُ إِنَّمَا كَانَ هَذَا أَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ وَجَهْدٌ حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنْ الْجَهْدِ وَحَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ اللَّهَ لِمُضَرَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا فَقَالَ لِمُضَرَ إِنَّكَ لَجَرِيءٌ قَالَ فَدَعَا اللَّهَ لَهُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ قَالَ فَمُطِرُوا فَلَمَّا أَصَابَتْهُمْ الرَّفَاهِيَةُ قَالَ عَادُوا إِلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ قَالَ يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ

مترجم:

2798.01.

ابو معاویہ، وکیع، اور جریر نے اعمش سے، انھوں نے مسلم بن صحیح سے اور انھوں نے مسروق سے روایت کی کہ حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میں مسجد میں ایک ایسے شخص کو چھوڑ کر آ رہا ہوں جو اپنی رائے سے قرآن مجید کی تفسیر کرتا ہے وہ (قرآن کی) آیت: ’’جب آسمان سے واضح دھواں اٹھے گا‘‘ کی تفسیر کرتا ہے، کہتا ہے: ’’قیامت کےدن لوگوں کے پاس ایک دھواں آئے گا جو لوگوں کی سانسوں کو گرفت میں لے لے گا، یہاں تک کہ لوگوں کو زکام جیسی کیفیت (جس میں سانس لینی مشکل ہوجاتی ہے) درپیش ہوگی، توحضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا: جس کے پاس علم ہو وہ اس کے مطابق بات کہے اور جو نہ جانتا ہو، وہ کہے: اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ بات انسان کے فہم (دین) کا حصہ ہے۔ کہ جس بات کو وہ نہیں جانتا اس کے بارے میں کہے: اللہ زیادہ جاننے والاہے۔ اس (دھوئیں) کی حقیقت یہ تھی کہ قریش نے جب نبی کریم ﷺ کے خلاف سخت نافرمانی سے کام لیا تو آپ نے ان کے خلاف یوسف علیہ السلام (کے زمانےوالے) قحط کے سالوں جیسی قحط سالی کی دعا کی۔ انھیں قحط اور تنگ دستی نے آلیا یہاں تک کہ (ان میں سے) کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھنے لگتا تو بھوک کی شدت سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا چھایا ہوا نظرآتا یہاں تک کہ ان لوگوں نے (بھوک کی شدت سے) ہڈیاں تک کھائیں، چنانچہ(ان میں سے) ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ(قبیلہ) مضر کے لئے بخشش طلب فرمائیں۔ وہ ہلاکت کا شکار ہیں، تو آ پ ﷺ نے فرمایا: ’’مضر کے لئے؟ تو بہت جراءت والا ہے (کہ اللہ سے شرک اور اس کے رسول سے بغض کے باوجود د رخواست کر رہا ہے کہ میں تمہارے لئے اللہ سے دعا کروں)‘‘ کہا: آپ ﷺ نے (پھر بھی) ان کے حق میں دعا فرما دی۔ اس پر اللہ عزوجل نے (آیت) نازل فرمائی: ’’ہم (تم سے) تھوڑے عرصے کے لئے عذاب ہٹا دیتے ہیں۔تم (پھر کفر ہی میں) لوٹنے والا ہو۔‘‘ (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: پھر ان پر بارش برسائی گئی۔ انھیں خوشحالی مل گئی، کہا: (تو پھر) وہ اپنی اسی روش پر لوٹ گئے جس سے پہلے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ حصہ) نازل فرمایا: ’’آپ انتظار کیجئے جب آسمان ظاہر دھواں لے آئے گا۔ جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا، یہ دردناک عذاب ہوگا۔‘‘ (پھر یہ آیت نازل فرمائی) ’’جس دن ہم بڑ ی گرفت میں لیں گے، ہم انتقام لینے والے ہوں گے۔‘‘ کہا: یعنی جنگ بدر کو۔