قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ (بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2932.01. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي ابْنَ حَسَنِ بْنِ يَسَارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ قَالَ كَانَ نَافِعٌ يَقُولُ ابْنُ صَيَّادٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ لَقِيتُهُ مَرَّتَيْنِ قَالَ فَلَقِيتُهُ فَقُلْتُ لِبَعْضِهِمْ هَلْ تَحَدَّثُونَ أَنَّهُ هُوَ قَالَ لَا وَاللَّهِ قَالَ قُلْتُ كَذَبْتَنِي وَاللَّهِ لَقَدْ أَخْبَرَنِي بَعْضُكُمْ أَنَّهُ لَنْ يَمُوتَ حَتَّى يَكُونَ أَكْثَرَكُمْ مَالًا وَوَلَدًا فَكَذَلِكَ هُوَ زَعَمُوا الْيَوْمَ قَالَ فَتَحَدَّثْنَا ثُمَّ فَارَقْتُهُ قَالَ فَلَقِيتُهُ لَقْيَةً أُخْرَى وَقَدْ نَفَرَتْ عَيْنُهُ قَالَ فَقُلْتُ مَتَى فَعَلَتْ عَيْنُكَ مَا أَرَى قَالَ لَا أَدْرِي قَالَ قُلْتُ لَا تَدْرِي وَهِيَ فِي رَأْسِكَ قَالَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ خَلَقَهَا فِي عَصَاكَ هَذِهِ قَالَ فَنَخَرَ كَأَشَدِّ نَخِيرِ حِمَارٍ سَمِعْتُ قَالَ فَزَعَمَ بَعْضُ أَصْحَابِي أَنِّي ضَرَبْتُهُ بِعَصًا كَانَتْ مَعِيَ حَتَّى تَكَسَّرَتْ وَأَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ مَا شَعَرْتُ قَالَ وَجَاءَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ فَحَدَّثَهَا فَقَالَتْ مَا تُرِيدُ إِلَيْهِ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّهُ قَدْ قَالَ إِنَّ أَوَّلَ مَا يَبْعَثُهُ عَلَى النَّاسِ غَضَبٌ يَغْضَبُهُ

مترجم:

2932.01.

ابن عون  نے ہمیں نافع سے حدیث بیان کی کہا: نافع کہا کرتے تھے کہ ابن صیاد (اس کے بارے میں) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما  نے کہا: میں اس سے دوبار ملا ہوں، انہوں نے کہا (ایک بار) میں اس سے ملا تو میں نے اس کے ساتھیوں میں سے ایک سے (مخاطب ہو کر) پوچھا: کیا تم لوگ یہ باتیں کرتے ہو کہ وہ و ہی (دجال) ہے؟ اس نے جواب دیا: اللہ کی قسم! نہیں۔ انہوں نے کہا: میں نے کہا: تم نے مجھ سے جھوٹ بولا ہے۔ واللہ ! تم میں سے ایک شخص نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اس وقت تک نہیں مرے گا یہاں تک کہ وہ مال اور اولاد میں تم لوگوں سے بڑھ جائے گا۔ اور آج وہ (اس کے ساتھی) سمجھتے ہیں کہ وہ اسی طرح ہے۔ (مال اور اولاد کے اعتبار سے سب سے بڑھ کر ہے۔) ہم نے (اسی موضوع) پر باتیں کیں۔ پھر میں اس کو چھوڑ کر چلا آیا۔ انہوں نے کہا: میں ایک بار اور اس سے ملا۔ اس وقت اس کی ایک آنکھ سوجی ہوئی تھی۔ کہا: میں نے اس سے کہا: جس طرح میں دیکھ رہا ہوں تمہاری آنکھ اس طرح کب ہوئی ہے؟ اس نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا: تمہیں معلوم نہیں، اور وہ تمہارے ہی سر میں ہے، اس نے کہا: اگر اللہ چاہے تو اسے تمہارے ڈنڈے میں پیدا کر سکتا ہے، کہا اس کے بعد اس نے اپنی ناک سے اتنی مکروہ آواز نکالی جتنی مکروہ آواز کسی گدھے کی میں نے کبھی سنی ہوگی۔ انہوں نے کہا: میرے ساتھیوں میں ایک سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو ڈنڈا تھا میں نے اسے اس کے ساتھ اتنا مارا کہ وہ ڈنڈا ٹوٹ گیا لیکن واللہ! مجھے کچھ پتا نہ چلا۔ نافع نے کہا:یہاں تک کہ وہ (ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما) واپس آئے اور ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں حاضر ہوئے اور انہیں (سب کچھ) بتایا تو انہوں نے کہا: تمہیں اس سے کیا چاہیے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ’’پہلی بات تو جو اس کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرے گی اس کا غصہ ہوگا جو اسے آئے گا ۔‘‘