قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: مُقَدِّمَةُ الکِتَابِ لِلإِمَامِ مُسلِمِ رَحِمَهُ الله (بَابُ في أَنَّ الْإِسْنَادَ مِنَ الدِّينِ وَأَنَّ الرِّوَايَةَ لَا تَكُونُ إِلَّا عَنِ الثِّقَاتِ‘ وَأَنَّ جَرحَ الرُّوَاةِ بِمَا هُوَ فِيهِم جَائِزٌ، بَل وَاجِبٌ، وَّأَنَّهُ لَيسَ مِنَ الغِيبَةِ المُحَرَّمَةِ ، بَل مِنَ الذَّبِّ عَنِ الشَّرِيعَةِ المُكَرَّمَةِ)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

62 .   وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا سَأَلَ جَابِرًا عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ{فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّى يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللهُ لِي وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ} [يوسف: 80]، فَقَالَ جَابِرٌ: «لَمْ يَجِئْ تَأْوِيلُ هَذِهِ»، قَالَ سُفْيَانُ: وَكَذَبَ، فَقُلْنَا لِسُفْيَانَ: وَمَا أَرَادَ بِهَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ الرَّافِضَةَ تَقُولُ: إِنَّ عَلِيًّا فِي السَّحَابِ، فَلَا نَخْرُجُ مَعَ مَنْ خَرَجَ مِنْ وَلَدِهِ حَتَّى يُنَادِيَ مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ يُرِيدُ عَلِيًّا أَنَّهُ يُنَادِي اخْرُجُوا مَعَ فُلَانٍ، يَقُولُ جَابِرٌ: «فَذَا تَأْوِيلُ هَذِهِ الْآيَةِ، وَكَذَبَ، كَانَتْ فِي إِخْوَةِ يُوسُفَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ».

صحیح مسلم:

مقدمہ صحیح مسلم 

  (

باب: اسناد دین میں سے ہے، (حدیث کی) روایت صرف ثقہ راویوں سے ہو سکتی ہے۔ راویوں میں پائی جانے والی بعض کمزوریوں، کوتاہیوں کی وجہ سے ان پر جرح جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، یہ غیبت میں شامل نہیں جو حرام ہے بلکہ یہ تو شریعت مکرمہ کا دفاع ہے

)
 

مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)

62.   سفیان (بن عیینہؒ) نے کہا: میں نے ایک آدمی سے سنا، اس نے جابر سے ارشاد ربانی: ﴿فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّـهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ﴾ ’’اب میں اس زمین سے ہرگز نہ ہلوں گا یہاں تک کہ میرا باپ مجھے اجازت دے، یا اللہ میرے لیے فیصلہ کر دے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔‘‘ کے بارے میں سوال کیا، تو جابر نے کہا: ’’اس کی تفسیر ابھی ظاہر نہیں ہوئی۔‘‘ سفیانؒ نے کہا: ’’اور اس نے یہ جھوٹ بولا۔‘‘ تو ہم نے سفیانؒ سے کہا: اس سے مراد اس کی کیا تھی؟ انہوں نے کہا: ’’روافض کہتے ہیں: حضرت علیؓ بادلوں میں ہیں۔ ان کی اولاد میں سے جو کوئی خروج کرے گا، ہم اس کے ساتھ خروج نہیں کریں گے حتیٰ کہ آسمان کی طرف سے پکارنے والا (اس کی مراد علیؓ ہے) پکارے۔ یقیناً وہی پکارے گا کہ فلاں کے ساتھ (مل کر) خروج کرو۔‘‘ جابر کہتا تھا: یہ اس آیت کی تفسیر ہے، اور اس نے جھوٹ کہا۔ ’’یہ آیت حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کے بارے میں (نازل ہوئی) تھی۔‘‘