قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ (بَابُ الرُّخْصَةِ فِي التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَةِ بِعُذْرٍ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

657.03. حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ مَحْمُودَ بْنَ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيَّ، حَدَّثَهُ أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ - وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْأَنْصَارِ - أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، وَإِذَا كَانَتِ الْأَمْطَارُ سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ وَلَمْ أَسْتَطِعْ أَنَّ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ لَهُمْ، وَدِدْتُ أَنَّكَ يَا رَسُولَ اللهِ تَأْتِي فَتُصَلِّي فِي مُصَلًّى، فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللهُ»، قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ، ثُمَّ قَالَ: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّي مِنْ بَيْتِكَ؟» قَالَ: فَأَشَرْتُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ الْبَيْتِ، فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَبَّرَ، فَقُمْنَا وَرَاءَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، قَالَ: وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرٍ صَنَعْنَاهُ لَهُ، قَالَ: فَثَابَ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ حَوْلَنَا حَتَّى اجْتَمَعَ فِي الْبَيْتِ رِجَالٌ ذَوُو عَدَدٍ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذَلِكَ مُنَافِقٌ، لَا يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَقُلْ لَهُ ذَلِكَ، أَلَا تَرَاهُ قَدْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللهِ؟» قَالَ: قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّمَا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ لِلْمُنَافِقِينَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللهِ " قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، ثُمَّ سَأَلْتُ الْحُصَيْنَ بْنَ مُحَمَّدٍ الْأَنْصَارِيَّ، وَهُوَ أَحَدُ بَنِي سَالِمٍ، وَهُوَ مِنْ سَرَاتِهِمْ، عَنْ حَدِيثِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، فَصَدَّقَهُ بِذَلِكَ،

مترجم:

657.03.

یونس نے ابن شہاب سےروایت کیا کہ محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو ان صحابہ کرام میں سے تھے جو انصار میں سے جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے، (بیان کیا) کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! میری نظر خراب ہو گئی ہے، میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں اور جب بارشیں ہوتی ہیں تو میرے اور ان کےدرمیان والی وادی میں سیلاب آ جاتا ہے، اس کی وجہ سے میں ان کی مسجد میں نہیں پہنچ سکتا کہ میں انھیں نماز پڑھاؤں تو اے اللہ کے رسولﷺ! میں چاہتا ہوں کہ آپﷺ (میرے گھر) تشریف لائیں اور نماز پڑھنے کی کسی ایک جگہ پر نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو (مستقل طور پر) جائے نماز بنا لوں۔ کہا: آپ ﷺ نے فرمایا: ’’إِنْ شَاءَ اللہ میں ایسا کروں گا۔‘‘ عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: تو صبح کے وقت دن چڑھتے ہی آپ ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے ، رسول اللہ ﷺ نے (اندر آنے کی) اجازت طلب فرمائی، میں نے تشریف آوری کا کہا، آپﷺ آ کر بیٹھے نہیں یہاں تک کہ گھر کے اندر (کے حصے میں) داخل ہوئے، پھر پوچھا: ’’تم اپنے گھر میں کس جگہ چاہتے ہو کہ میں (وہاں) نماز پڑھوں؟‘‘ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر تکبیر (تحریمہ) کہی اور ہم آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپﷺ نے دورکعتیں ادا فرمائیں، پھر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد ہم نے آپﷺ کو خزیر (گوشت کے چھوٹے ٹکڑوں سے بنے ہوئے کھا نے) کے لیے روک لیا جو ہم نے آپﷺ کے لیے تیار کیا تھا۔ (عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: (آپﷺ کی آمد کا سن کر) اردگرد سے محلے کے لوگ آ گئے حتی کہ گھر میں خاصی تعدا د میں لوگ اکٹھے ہو گئے۔ ان میں سے ایک بات کرنے والے نے کہا: مالک بن دخشن کہاں ہے؟ ان میں سے کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے بارے میں ایسا نہ کہو، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اس نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے لَاإِلٰهَ إِلَّاالله کہا ہے؟‘‘ (عتبان ﷜نے) کہا: تو لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ اس (الزام لگانے والے) نےکہا: ہم تو اس کی وجہ اور اس کی خیر خواہی منافقوں ہی کے لے دیکھتے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اسے شخص کو آگ پر حرام قرار دیا ہے جو لَاإِلٰهَ إِلَّاالله کہتا ہے اور اس کے ذریعے سے اللہ کی رضا کا طلب گار ہے۔‘‘ ابن شہاب نے کہا: میں نے (بعد میں) حصین بن محمد انصاری سے، جو بنو سالم سے تعلق رکھتے ہیں ان کے سرداروں میں سے ہیں، محمود بن ربیع کی اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اس میں ان (محمود) کی تصدیق کی۔