قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ (بَابُ الرُّخْصَةِ فِي اللَّعِبِ الَّذِي لَا مَعْصِيَةَ فِيهِ فِي أَيَّامِ الْعِيدِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

892.04. حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى وَاللَّفْظُ لِهَارُونَ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا عَمْرٌو أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثٍ فَاضْطَجَعَ عَلَى الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَانْتَهَرَنِي وَقَالَ مِزْمَارُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ دَعْهُمَا فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا وَكَانَ يَوْمَ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ فَإِمَّا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِمَّا قَالَ تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ فَقُلْتُ نَعَمْ فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ خَدِّي عَلَى خَدِّهِ وَهُوَ يَقُولُ دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ حَتَّى إِذَا مَلِلْتُ قَالَ حَسْبُكِ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاذْهَبِي

مترجم:

892.04.

محمد بن عبد الرحمان نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سےروایت کی، انھوں نےکہا: رسول اللہ ﷺ (گھر میں) داخل ہوئے جبکہ میرے پاس دو بچیاں جنگ بعاث کے اشعار بلند آواز سے سنا رہی تھیں۔ آپﷺ بستر پر لیٹ گئے اور اپنا چہرہ (دوسری سمیت) پھیر لیا۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے۔ تو انھوں نے مجھے سرزنش کی اور کہا: رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں شیطان کی آواز؟ اس پر رسول اللہ ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا: ’’انھیں چھوڑیئے‘‘ جب ان (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی توجہ ہٹی تو میں ان کو اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔ اورعید کا ایک دن تھا، کالے لوگ ڈھالوں اور بھالوں کےکرتب دکھا رہے تھے تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی یا آپ نے خود ہی فرمایا: ’’دیکھنے کی خواہش رکھتی ہو؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپﷺ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا، میرا رخسار آپﷺ کے رخسار پر (لگ رہا) تھا اور آ پ فرما رہے تھے: ’’اے ارفدہ کے بیٹو! (اپنا مظاہرہ) جاری رکھو۔‘‘ حتیٰ کہ جب میں اکتا گئی (تو) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمھارے لئے کافی ہے؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ فرمایا: ’تو چلی جاؤ۔‘‘