قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْكُسُوفِ (بَابُ مَا عُرِضَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فِي صَلَاةِ الْكُسُوفِ مِنْ أَمْرِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

904.02. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّاسُ إِنَّمَا انْكَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ سِتَّ رَكَعَاتٍ بِأَرْبَعِ سَجَدَاتٍ بَدَأَ فَكَبَّرَ ثُمَّ قَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فَقَرَأَ قِرَاءَةً دُونَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فَقَرَأَ قِرَاءَةً دُونَ الْقِرَاءَةِ الثَّانِيَةِ ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ أَيْضًا ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ لَيْسَ فِيهَا رَكْعَةٌ إِلَّا الَّتِي قَبْلَهَا أَطْوَلُ مِنْ الَّتِي بَعْدَهَا وَرُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ سُجُودِهِ ثُمَّ تَأَخَّرَ وَتَأَخَّرَتْ الصُّفُوفُ خَلْفَهُ حَتَّى انْتَهَيْنَا وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى انْتَهَى إِلَى النِّسَاءِ ثُمَّ تَقَدَّمَ وَتَقَدَّمَ النَّاسُ مَعَهُ حَتَّى قَامَ فِي مَقَامِهِ فَانْصَرَفَ حِينَ انْصَرَفَ وَقَدْ آضَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَإِنَّهُمَا لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنْ النَّاسِ وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِمَوْتِ بَشَرٍ فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ مَا مِنْ شَيْءٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ لَقَدْ جِيءَ بِالنَّارِ وَذَلِكُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ مَخَافَةَ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْ لَفْحِهَا وَحَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ كَانَ يَسْرِقُ الْحَاجَّ بِمِحْجَنِهِ فَإِنْ فُطِنَ لَهُ قَالَ إِنَّمَا تَعَلَّقَ بِمِحْجَنِي وَإِنْ غُفِلَ عَنْهُ ذَهَبَ بِهِ وَحَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَةَ الْهِرَّةِ الَّتِي رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا ثُمَّ جِيءَ بِالْجَنَّةِ وَذَلِكُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَقَدَّمْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي مَقَامِي وَلَقَدْ مَدَدْتُ يَدِي وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْ ثَمَرِهَا لِتَنْظُرُوا إِلَيْهِ ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ لَا أَفْعَلَ فَمَا مِنْ شَيْءٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ

مترجم:

904.02.

ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہم سے عبداللہ بن نمیر نے حدیث بیان کی، نیز محمد بن عبداللہ نمیر نے حدیث بیان کی۔۔۔ دونوں کے لفظ ملتے جلتے ہیں۔ کہا: ہمیں میرے والد (عبداللہ بن نمیر) نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں عبدالملک نے عطاء سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں، جس دن رسول اللہ ﷺ کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے، سورج گرہن ہو گیا، (بعض) لوگوں نے کہا: سورج کو گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت کی بنا پر لگا ہے۔ (پھر) نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوعوں، چار سجدوں کے ساتھ (دو رکعت) نماز پڑھائی۔ آغاز کیا تو اللہ اکبر کہا، پھر قراءت کی اور طویل قراءت کی، پھر جتنا قیام کیا تھا تقریباً رکوع کیا، پھر رکوع سے ا پنا سر اٹھایا اور پہلی قراءت سےکچھ کم قراءت کی، پھر (اس) قیام جتنا رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور دوسری قراءت سے کچھ کم قراءت کی، پھر (اس) قیام جتنا رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا، پھر سجدے کے لئے جھکے اور دو سجدے فرمائے، پھر کھڑے ہوئے اور (اس دوسری ر کعت میں بھی) تین رکوع کیے، ان میں سے ہر پہلا رکوع بعد والے رکوع سے زیادہ لمبا تھا اور آپﷺ کا رکوع تقریباً سجدے کے برابر تھا، پھر آپ پیچھے ہٹے تو آپﷺ کے پیچھے والی صفیں بھی پیچھے ہٹ گئیں حتیٰ کہ ہم لوگ آخر (آخری کنارے) تک پہنچ گئے۔ ابو بکر (ابن ابی شیبہ) نے کہا: حتیٰ کہ آپﷺ عورتوں کی صفوں کے قریب پہنچ گئے۔ پھر آپ آگے بڑھے اور آپ کے ساتھ لوگ بھی (صفوں میں) آگے بڑھ آئے حتیٰ کہ آپ (واپس) اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے پھر جب آپﷺ نے نماز سے سلام پھیرا، اس وقت سورج اپنی اصلی حالت پر آ چکا تھا، پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگو! سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہی ہیں اور بلا شبہ ان دونوں کو، لوگوں میں سے کسی کی موت پر گرہن نہیں لگتا۔‘‘ ابو بکر(بن ابی شیبہ) نے ’’کسی بشر کی موت پر‘‘ کہا۔ پس جب تم کوئی ایسی چیز دیکھو تو اس وقت تک نماز پڑھو جب تک کہ یہ زائل ہو جائے، کوئی چیز نہیں جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے مگر میں نے اسے اپنی اس نماز میں دیکھ لیا ہے۔آگ (میرے سامنے) لائی گئی اور یہ اس وقت ہوا جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں اس ڈر سے پیچھے ہٹا ہوں کہ اس کی ل پٹیں مجھ تک نہ پہنچیں۔ یہاں تک کہ میں نے اس آگ میں مڑے ہوئے سرے والی چھڑی کے مالک کو دیکھ لیا، وہ آگ میں اپنی انتڑیاں کھینچ رہا ہے۔ وہ اپنی اس مڑے ہوئے سرے والی چھڑی کے ذریعے سے حاجیوں کی (چیزیں) چوری کرتا تھا۔ اگر اس (کی چوری) کا پتہ چل جاتا تو کہہ دیتا: یہ چیز میری لاٹھی کے ساتھ اٹک گئی تھی، اور اگر پتہ نہ چلتا تو وہ اسے لے جاتا۔ یہاں تک کہ میں نے اس (آگ) میں بلی والی اس عورت کو بھی دیکھا جس نے اس (بلی) کو باندھ رکھا، نہ خود اسے کچھ کھلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے اس چھوٹے موٹے جاندار اور پرندے کھا لیتی،حتیٰ کہ وہ (بلی) بھوک سے مر گئی، پھر جنت کو (میرے سامنے) لایا گیا اور یہ اس وقت ہوا جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں آگے بڑھا حتیٰ کہ میں واپس اپنی جگہ پر آ کھڑا ہوا، میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میں چاہتا تھا کہ میں اس کے پھل میں سے کچھ لے لوں تاکہ تم اسے دیکھ سکو، پھر مجھ پر بات کھلی کہ میں ایسا نہ کروں، کوئی ایسی چیز نہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے مگر میں نے وہ اپنی اس نماز میں دیکھ لی ہے۔"