Muslim:
The Book of Zakat
(Chapter: The Khawarij and their attributes)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1064.
سعید بن مسروق نے عبدالرحمان بن ابی نعم سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب یمن میں تھے تو انھوں نےکچھ سونا رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا جو اپنی مٹی کے اندر ہی تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے چار افراد: اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ (بن حصین بن حذیفہ) بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اس کے بعد (آگے بڑے قبیلے) بنو کلاب (بن ربیعہ بن عامر) کا ایک فرد تھا اور زید الخیر طائی جو اس کے بعد (آگے بنوطے کی ذیلی شاخ) بنو نبہان کا ایک فرد تھا، میں تقسیم فرما دیا، کہا: اس پر قریش ناراض ہو گئے اور کہنے لگے: کیا آپ ﷺ نجدی سرداروں کو عطا کریں گے اور ہمیں چھوڑ دیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ کام میں نے ان کی تالیف قلب کی خاطر کیا ہے۔‘‘ اتنے میں گھنی داڑھی، ابھرے ہوئے رخساروں، دھنسی ہوئی آنکھوں، نکلی ہوئی پیشانی، منڈھے ہوئے سر والا ایک شخص آیا اور کہا: اے محمد ﷺ!اللہ سے ڈریں! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں اس کی نافرمانی کروں گا تو اس کی فرمانبرداری کون کرے گا! وہ تو مجھے تمام روئے زمین کے لوگوں پر امین سمجھتا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟‘‘ پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا، لوگوں میں سے ایک شخص نے اس کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی۔ بیان کرنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کی اصل (جس قبیلے سے اس کا اپنا تعلق ہے) سے ایسی قوم ہوگی جو قرآن پڑھے گی لیکن وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اتر ےگا۔ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بنائے جانے والے شکار سے نکل جاتا ہے، اگر میں نے ان کو پا لیا تو میں ہر صورت انھیں اس طرح قتل کروں گا جس طرح (عذاب بھیج کر) قوم عاد کو قتل کیا گیا۔
"زکاۃ"زكا.يزكو.زكاةسے ہے۔اس کا لغوی معنی اگنا اور بڑھنا ہے۔بڑھوتری تبھی ممکن ہے جب اگنے والی چیز آفات و امراض سے پاک ہو، زكا کا ایک معنی اچھا یا پاک ہونا بھی ہے۔عرب کہتے ہیں۔زكت الارض اس کا معنی ہے۔طابتیعنی زمین اچھی صاف ستھری ہوگئی۔تزکیہ اسی سے ہے۔نفوس کا تزکیہ یہ ہے کہ ان کو آفات،بہت سے امراض اور آلائشوں سے پاک کیا جائے۔انسان کو اللہ تعالیٰ فطرت سلیمہ عطا کرکے دنیا میں بھیجتا ہے۔ماں باپ اور دوسرے قریبی لوگ اس کی فطرت کو آلودہ کردیتے ہیں۔سب سے زیادہ آلودگی یہ ہوتی ہے کہ انسان وجود عطاکرنے والے اور پالنے والے اللہ کی محبت کے بجائے مادی اشیاء کی محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔یہ مرض باقی دنیا کے تمام امراض کا سبب بنتا ہے۔اسی سے حرص وہوس،لالچ،خودغرضی،ظلم ،سرکشی،طغیان،غرض سب بیماریاں پیدا ہوتی اور بڑھتی ہیں۔انبیائے کرام خصوصاً محمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد نفوس انسانی کا تزکیہ کرنا،یعنی انھیں ان تمام مہلک بیماریوں سے نجات دلاناہے،اللہ کا ارشاد ہے"هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ"وہ جس نے امیوں(ان پڑھوں) میں انھی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے،یقیناً وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔"(الجمعۃ۔2:62)ویسے تو تمام ارکان اسلام تزکیہ نفوس کا زریعہ ہیں،ان میں سے زکاۃ بطور خاص اس مقصد کے لئے مقرر کی گئی ہے۔قرآن مجید میں صدقات اور اللہ کی راہ میں مال دینے کو تزکیے کا زریعہ بتایا گیا ہے۔رسول اللہﷺسے کہا گیا: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ"ان کے مالوں میں سے صدقہ(زکاۃ) لیں،اس کے زریعے سے انھیں پاک کریں،انھیں صاف ستھرا کریں اور ان کو دعا دیں۔"(التوبہ۔9:103)اپنا تزکیہ اللہ کی راہ میں مال دے کر کیا جاسکتا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہےالَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ "جو اپنا مال دیتا ہے پاک ہونے کے لئے۔"(اللیل۔18:92)امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیںنفس المتصدق تزكو وماله يزكو(اي)يطهر ويزيد في المعني"صدقہ دینے والا خود بھی پاک ہوتا ہے اور اس کا مال بھی پاک ہوتا ہے۔۔۔"(مجموع فتاویٰ لابن تیمیہؒ8/25)
اس کے مقاصد میں سے ایک مواسات بھی ہے۔بنیادی اصول یہ ہے۔(توخذ من اغنيائهم وترد الي فقرائهم)"ان کے مال داروں سے لیا جائے اور ان کے فقیروں پر لوٹایا جائے۔"اس لحاظ سے زکاۃ کی صحیح ادائیگی امت کی اجتماعیت اور یکجہتی کی ضامن ہے۔اسلام نے زکاۃ بنیادی طور پر انھی اموال میں مقرر کی ہے۔جن میں بڑھوتری(نمو) ہوتی ہے،یعنی مویشی،کھیتی باڑی ،مال تجارت اورنقدی جن میں باقی تمام اموال کی قدر محفوظ رکھی جاسکتی ہے۔
یہ بھی اسلام کی رحمت کا مظہر ہے۔کہ زکاۃ کا ایک نصاب مقرر کیا گیا ہے۔مقصود یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے بعد کچھ زائد ہو۔ان سے زکاۃ وصول کی جائے،جن کے پاس بنیادی ضرورتوں کے لئے بھی مال نہ ہو یا کم ہو ان کو چھوٹ دی جائے بلکہ ان کی مدد کی جائے۔جدید معاشیات نے ٹیکس کے حوالے سے بنیادی چھوٹ کا تصور نصاب زکاۃ ہی سے لیاہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بہت آسان اور جامع لفظوں میں بہت خوبصورتی کے ساتھ اس نصاب کو یوں بیان فرمایا:()"پا نچ وسق سے کم میں صدقہ نہیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں صدقہ ہے۔اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں صدقہ ہے۔"اور آپ ﷺنے اپنی پانچوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔
یہی کتاب الزکاۃ میں امام مسلم ؒ کی لائی ہوئی پہلی حدیث ہے۔
وسق ماپنے کا پیمانہ ہے۔غلہ،خشک کھجوریں،کشمش وغیرہ کا لین دین وسق سے ماپ کرہوتا تھا۔پانی اور دوسری مائع اشیاء کو بھی اسی پیمانے سے ماپا جاتا تھا۔ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔اس بارے میں اگرچہ ابن ماجہ،ابو داود،اور نسائی میں مرفوع حدیثیں بھی موجود ہیں لیکن وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔(التلخیص الجیر لابن حجر 169/2،رقم:841۔842)
اس حوالے سے اعتماد اس بات پر ہے کہ اس مقدار پر اجماع ہے۔(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہؒ447/5) صاع کی مقدار پر البتہ اہل کوفہ اور اہل حجاز یا یوں کہہ لیجئے تمام ائمہ(مالک،شافعی،احمدؒ) کے درمیان اختلاف ہے۔حجاز میں زرعی اجناس کے لین دین کا نمایاں مرکز مدینہ تھا۔ان کا صاع ہی حجازی صاع کہلاتا تھا۔کوفہ میں حجاج بن یوسف نے جوصاع متعارف کروایا تھا وہ حجازی صاع سے نسبتاًبڑاتھا،اسے صاع عراقی یا صاع حجاجی کہا جاتا تھا۔
اہل کوفہ ایک صاع کووزن میں 8 رطل کے برابر قرار دیتے ہیں جبکہ اہل حجاز 5.3 رطل کے برابر۔
امام ابو یوسف اورکئی دوسرے اہل کوفہ نے حج کے موقع پر زیارت مدینہ کے دوران میں جب پتہ لگانا چاہا کہ رسول اللہ ﷺ کاصاع کتنا تھا تو کثیر تعداد میں مہاجرین اور انصار کے بیٹوں نے اپنے اپنے گھروں سے اپنے خاندانی صاع،جوصحابہؓ استعمال کرتے رہے تھے ،لا کردکھائے،امام ابو یوسف ؒ نے کہا:میں نے ان کی مقدار جانچی تو وہ سب آپس میں مساوی اور 5.3 رطل کے برابر تھے۔(فرايت امرا قويا فقد تركت قول ابي حنيفة في الصاع واخذت بقول اهل المدينة)"میں نے بہت پختہ بات دیکھی تو میں نے صاع کے بارے میں ابو حنیفہ کا قول چھوڑ دیا اور اہل مدینہ کاقول لے لیا۔"(سنن الکبریٰ للبیہقی:171:4 وسنن الدارقطنی:150:2 حدیث 2105 ط:دارالکتب العلمیۃ۔۔۔امام شوکانیؒ اس کی سند کو جید قرار دیتے ہیں)
جدید محققین نے آج کل کے حساب سے صاع کا وزن معلوم کیا تو وہ ان کے خیال کے مطابق2176۔گرام بنتاہے۔(فقہ الزکاۃ للدکتور یوسف القرضاوی372/1)
گندم کے پانچ وسق 653 کلوگرام بنتے ہیں۔(فقہ الزکاۃ للدکتور یوسف القرضاوی:373/1)
ایک اوقیہ میں چالیس درہم ہوتے ہیں،ایک درہم کاوزن جدید تحقیق کے مطابق 2.975 گرام بنتاہے،اس طرح ایک اوقیہ کا وزن ایک سو انیس گرام اور پانچ اوقیہ چاندی کاوزن پانچ سو پچانوے گرام بنتا ہے۔اس کے تولے بنائے جائیں تو تقریباً اکاون تولے بنتے ہیں۔سابقہ اندازہ ساڑھے باون تولے چاندی کا تھا جو اس مقدار کے قریب ہی تھا۔
سونے کے نصاب زکاۃ کا تذکرہ صحیحین کی احادیث میں نہیں۔امام ابو داودؒ نے حضرت علیؓ کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے،اس کے الفاظ ہیں:()"تم پر کوئی چیز(بطور زکاۃ ادا کرنا)فرض نہیں،یعنی سونے میں جب تک تمھارے پاس(کم از کم) بیس دینار نہ ہوں۔جب تمھارے پاس بیس دینار ہوں اور ان پر سال گزرجائے توان میں آدھا دینار(زکاۃ) ہے،جو اس سے زیادہ ہوگا وہی اس حساب کے مطابق(محسوب) ہوگا۔"(سنن ابی داود،الزکاۃ باب فی الذکاۃ السائمۃ حدیث 1573۔قاضی عیاض ؒ کہتے ہیں:سونے کے نصاب پر اجماع ہے۔
سونے کے دینار میں چوبیس قراط ہوتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کے دور میں رومی اور ایرانی دینار استعمال ہوتے تھے۔عبدالملک بن مروان نے زکاۃ کے نصاب کو پیش نظر رکھتے ہوئے،اہل علم کے اتفاق سےجو دینار ڈھالے اور جن کے مطابق صدیوں تک دینار ڈھالے جاتے رہے وہ دینار مل بھی چکے ہیں۔ان دیناروں کے وزن کے مطابق سونے کی زکاۃ کا نصاب85گرام بنتا ہے۔یہ برصغیر پاک وہند میں سونے کے نصاب کا جو حساب لگایا گیاتھا وہ ساڑھے سات تولے تھا،اس کے ستاسی گرام بنتے ہیں،یعنی محض دو گرام زیادہ۔اب تقریباً پورے عالم اسلام کا 85 گرام پر اتفاق ہے۔
نقدی:رسول اللہ ﷺکے عہد مبارک میں سونے چاندی یا ان کے ڈھلے ہوئے سکے بطور نقدی استعمال ہوتے تھے۔علمائے امت کا اجماع ہے کہ کرنسی کو انھی پر قیاس کیاجائے گا۔مغربی استعمار کے غلبے کے بعد دنیا میں کاغذ کی کرنسی رائج ہوئی۔ہر ملک ایسی کرنسی سونے یا چاندی کی بنیاد پر جاری کرتاتھا۔(خزانے میں کرنسی کے مساوی یا ایک خاص تناسب سے سونا یا چاندی کا موجود ہوناضروری تھا)کچھ عرصے بعد یہ بنیاد بھی ختم ہوگئی،اب کرنسی کی بنیاد نہ سونے پر ہے نہ چاندی پر۔اب لوگوں کے پاس موجودہ کرنسی پر زکاۃ کانصاب کیاہوگا؟بعض لوگ کہتے ہیں اسے چاندی کے نصاب پر قیاس کیا جائے۔بعض سونے کے نصاب پر قیاس کرنے کے قائل ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاندی اورسونے دونوں کا نصاب قیمت یا مالیت کے اعتبار سے مساوی تھا لیکن بعد میں چاندی اپنی قیمت برقرار نہ رکھ سکی،باقی اشیاء جن پر زکاۃ فرض ہے۔مثلاً بھیڑ ،بکریاں،یا اونٹ وغیرہ ان کی مالیت کے ساتھ چاندی کے نصاب کی مالیت کوئی مطابقت نہیں رکھتی،ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت میں پانچ چھ سے زیادہ بکریاں نہیں خریدی جاسکتیں۔دوسری طرف سونے کی قیمت بھی غیر متناسب طریقے پر زیادہ ہورہی ہے۔اب کرنسی کی زکاۃ کامسئلہ انتہائی سنجیدہ غور وفکر کا متقاضی ہے۔
امام قرطبیؒ نے ابو عبید قاسم بن سلامؒ کے حوالے سے لکھا ہے۔کے اسلام کے ابتدائی دور میں ایرانی اور رومی د ونوں قسموں کے درہم متد اول تھے۔ایک دوسرے کا آدھا تھا۔ایک کا وزن آٹھ دانق تھا اور دوسر ے کا چاردانق،لوگ دونوں کو مساوی طور پر ملا کر یعنی آدھے بڑے اورآدھے چھوٹے دراہم سے اپنے معاملات طے کیا کرتے تھے۔اسلام آیا تو لوگوں نے زکاۃ کی ادائیگی کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا۔وہ سو ایرانی اور سو رومی درہموں کو ملا کر ان سے زکاۃ کے نصاب کا تعین کرتے۔دونوں کو مساوی تعداد میں ملانے سے پانچ اوقیہ چاندی کا نصاب پورا ہوجاتا،اسی طرح زکاۃ ادا کی جاتی۔عبدالملک نے جب اپنے درہم ڈھلوانے کا ارادہ کیا تو تمام اہل علم کو جمع کیا۔انھوں نے درہم کا وزن،دونوں درہموں کی اوسط،یعنی 4+8 دانق کا نصف6 دانق مقرر کیا۔اس طرح سے دو سو درہموں میں پانچ اوقیہ چاندی پوری ہوجاتی تھی۔
اگر سونے کی قیمتیں اسی طرح غیر متناسب انداز میں بڑھتی رہیں تو ایسا کیا جاسکتاہے کہ کرنسی کے لئے چاندی کے نصاب کی مالیت کا نصف سونے کی نصاب کی مالیت کا نصف ملا کر مقدار نصاب متعین کرلیا جائے۔اس کے لئے پورے عالم اسلام کے حوالے سے اہل علم کا اجماع حاصل کرنا ناگزیر ہوگا۔فی الحال یہی مناسب ہے کہ جب تک سونے کے نصاب اور چاندی کو چھوڑ کرباقی اشیاء کے نصاب کی قیمتیں قریب قریب رہتی ہیں سونے کے نصاب کو کرنسی کے نصاب کی بنیاد بنایا جائے۔
کتاب الذکاۃ میں امام مسلم ؒ نے جس ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،۔اس کے بارے میں امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:امام مسلمؒ نےامام مالک ؒ کی موطا کی طرح اپنی صحیح میں صحت کے اعلیٰ ترین معیار پر احادیث ترتیب دی ہیں۔انھوں نے پہلے چاندی کا نصاب ذکر کیا ہے۔پھر اونٹوں کا ،پر اجناس خوردنی اور خشک پھلوں کا،پھر مویشی اور دیگر اشیاء کا، پھر یہ کہ ایک سال گزرنا ضروری ہے۔اس غرض سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر ؓ ،اور ابن عمر ؓ ،کے حوالے سے روایتیں بیان کیں،اس میں اگرچہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباسؓ اختلاف کرتے ہیں،لیکن دو خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے جو کیا ہے وہ اس لئے راحج ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهدين من بعدي"تم میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔"(شرح مشکل الآثار 3/223 حدیث 1186،نیز دیکھئے،سنن ابن ماجہ حدیث 42،43،وسنن ابی داود حدیث ،4607۔4608) اور یہ بھی فرمایا:((فان يطيعواابابكر وعمر يرشدوا))"اگر وہ ابو بکر اور عمر رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اطاعت کریں تو راہنمائی پائیں گے"(صیح مسلم حدیث 681) اس کے بعد امام مسلمؒ نے سونے کی زکاۃ کا ذکر کیا ہے۔کیونکہ اسکی دلیل کی قوت نسبتاً کم ہے۔پھر ان چیزوں کاذکر کیاگیاہے جن میں زکاۃ فرض کی گئی ہے۔اس حوالے سے قرآن کی آیات اور احادیث بیان کی ہیں۔ان میں بہترین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اور زکاۃ کےی بارے میں آپ کا مکتوب ہے۔ان کے بعد وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے روایت لائے ہیں۔(مجموع فتاویٰ لابن تیمیہؒ25:9)
سعید بن مسروق نے عبدالرحمان بن ابی نعم سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب یمن میں تھے تو انھوں نےکچھ سونا رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا جو اپنی مٹی کے اندر ہی تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے چار افراد: اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ (بن حصین بن حذیفہ) بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اس کے بعد (آگے بڑے قبیلے) بنو کلاب (بن ربیعہ بن عامر) کا ایک فرد تھا اور زید الخیر طائی جو اس کے بعد (آگے بنوطے کی ذیلی شاخ) بنو نبہان کا ایک فرد تھا، میں تقسیم فرما دیا، کہا: اس پر قریش ناراض ہو گئے اور کہنے لگے: کیا آپ ﷺ نجدی سرداروں کو عطا کریں گے اور ہمیں چھوڑ دیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ کام میں نے ان کی تالیف قلب کی خاطر کیا ہے۔‘‘ اتنے میں گھنی داڑھی، ابھرے ہوئے رخساروں، دھنسی ہوئی آنکھوں، نکلی ہوئی پیشانی، منڈھے ہوئے سر والا ایک شخص آیا اور کہا: اے محمد ﷺ!اللہ سے ڈریں! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں اس کی نافرمانی کروں گا تو اس کی فرمانبرداری کون کرے گا! وہ تو مجھے تمام روئے زمین کے لوگوں پر امین سمجھتا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟‘‘ پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا، لوگوں میں سے ایک شخص نے اس کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی۔ بیان کرنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کی اصل (جس قبیلے سے اس کا اپنا تعلق ہے) سے ایسی قوم ہوگی جو قرآن پڑھے گی لیکن وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اتر ےگا۔ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بنائے جانے والے شکار سے نکل جاتا ہے، اگر میں نے ان کو پا لیا تو میں ہر صورت انھیں اس طرح قتل کروں گا جس طرح (عذاب بھیج کر) قوم عاد کو قتل کیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن سے مٹی میں ملا ہوا کچھ سونا بھیجا یعنی غیر صاف شدہ سونا، رول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار اشخاص میں تقسیم فرما دیا: یعنی اقرع بن حابس حنظلی،عینیہ بن بدر فزاری،علقمہ بن علاثہ عامری رضی اللہ تعالیٰ عنہم (جو بنو کلاب کا ایک فرد ہے) اور زید الخیر طائی جو بنو نبھان سے ہے، کو دے دیا۔ اس پر قریش ناراض ہو گئے اور کہنےلگے: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نجدی سرداروں کو دیں گے اور ہمیں محروم چھوڑدیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ کام میں نے ان کی تالیف (مانوس کرنے) کے لیے کیا‘‘ اتنے میں ایک آدمی آگیا، جس کی داڑھی گھنی تھی، رخسار ابھرے ہوئے تھے، آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی بلند تھی، یا کن پٹی ابھری ہوئی تھی، سر منڈا ہوا تھا، اس نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ سے ڈر! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں تو پھر اس کی اطاعت کون کرے گا! کیا وہ اہل زمین کے بارے میں مجھ پر اعتماد فرماتا ہے او تم مجھ پر بےاعتمادی کرتے ہو؟‘‘ حضرت انس رضی اللہ تعالی کہتے ہیں پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا، لوگوں میں سے ایک آدمی نے اس کو قتل کرنے کی اجازت چاہی۔ (لوگوں کا خیال ہے وہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ تھے) اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی نسل سے ایسے لوگ ہوں گے، جوقرآن بڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر ےگا۔ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، اگر میں نے ان کو پا لیا، تو انہیں عادیوں کے طرح ختم کر ڈالوں گا۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) زَیدُ الخَیر: کو جاہلیت کے دور میں زید الخیل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ کیونکہ وہ گھوڑوں کے شوقین تھے۔ (2) صَنَادِيدَ: صديد کی جمع ہے سردار، چوہدری، وڈیرا۔ (3) كَثُّ اللِّحْيَةِ: گھنی داڑھی والا۔ (4) مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ: مشرف، بلند، ابھرا ہوا۔ (5) وجنة:رخسار کا بلند گوشت۔ (6) غائر: اندر کو دھنسا ہوا۔ (7) ناتي الجبين:ناتی بلند، اونچا، جبین، کن پٹی، مراد جبهة، پیشانی والا حصہ ہے۔ (8) ضِئْضِئِ: نسل، اصل، عنصر۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Said Khudri reported that 'Ali (RA) sent some gold alloyed with dust to the Messenger of Allah (ﷺ) , and the Messenger of Allah (ﷺ) distributed that among four men, al-Aqra bin Habis Hanzali and Uyaina bin Badr al-Fazari and 'Alqama bin 'Ulatha al-'Amiri, then to one person of the tribe of Kilab and to Zaid al-Khair al-Ta'l, and then to one person of the tribe of Nabhan. Upon this the people of Quraish felt angry and said: He (the Holy Prophet) gave to the chiefs of Najd and ignored us. Upon this the Messenger of Allah (ﷺ) said: I have done it with a view to con- cillating them. Then there came a person with thick beard, prominent cheeks, deep sunken eyes and protruding forehead and shaven head. He said: Muhammad, fear Allah. Upon this the Messenger of Allah (ﷺ) said: If I disobey Allah, who would then obey Him? Have I not been (sent as the) most trustworthy among the people of the-world? -but you do not repose trust in me. That person then went back. A person among the people then sought permission (from the Holy Prophet) for his murder. According to some, it was Khalid bin Walid who sought the permission. Upon this the Messenger of Allah (ﷺ) said: From this very person's progeny there would arise people who would recite the Qur'an, but it would not go beyond their throat; they would kill the followers of Islam and would spare the idol-worshippers. They would glance through the teachings of Islam so hurriedly just as the arrow passes through the pray. If I were to ever find them I would kill them like 'Ad.