باب: جس شخص پرحالت جنابت میں فجر طلو ع ہو جائے اس کا روزہ صیحح ہے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The fasting is valid for the one who is Junub when dawn comes)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1109.
ہمیں ابن جریج نے خبر دی، انھوں نے کہا: مجھے عبدالملک بن ابی بکر بن عبدالرحمٰن (بن حارث بن ہشام مخزومی) نے (اپنے والد) ابو بکر سے خبر دی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (احادیث و واقعات سیرت) بیان کرتے ہوئے سنا، وہ اپنے بیان کے دوران کہ رہے تھے: جس پر جنابت کی حالت میں فجر کا وقت آ جائے تو وہ روزہ نہ رکھے۔ میں نے یہ بات۔۔۔ اپنے والد۔۔۔ عبدالرحمٰن بن حارث کو بتائی تو انھوں نے اس کا انکار کیا، اس پر حضرت عبدالرحمٰن چل پڑے اور میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا یہاں تک کہ ہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبدالرحمٰن نے ان دونوں سے اس (مسئلے) کے بارے میں سوال کیا، کہا: (جواب میں) ان دونوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ (احتلام کے) خواب کے بغیر حالت جنابت میں صبح کرتے، پھر آپﷺ روزہ رکھتے۔ پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ مروان کے پاس آ گئے، عبدالرحمٰن نے ان کے سامنے یہ بات بیان کی تو مروان نے کہا: کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم ضرور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاس جاؤ اور اس کی بات تردید کرو جو وہ کہتے ہیں۔ کہا: تو ہم حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے۔ اور (حدیث کا راوی) ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس اثناء میں (اپنےوالد عبداالرحمٰن کے ساتھ) موجود تھا۔ کہا: تو عبدالرحمان نے یہ ساراواقعہ ان کے سامنے بیان کیا تو حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: کیا (واقعی) ان دونوں (حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما) نے تم سے یہ بات کی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں! ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: وہ (اس مسئلے کو) زیادہ جاننے والی ہیں۔ پھر حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس (مسئلے) میں جو کہا کرتے تھے، اس کو حضرت فضل بن عباس کی طرف لوٹایا۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے یہ فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی۔ اور نبی کریم ﷺ سے (براہ راست) نہیں سنی، کہا: اس کے بعد ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس (بات) سے جو وہ اس معاملے میں کہا کرتے تھے، رجوع کر لیا۔ میں (ابن جریج) نے عبدالملک سے کہا: کیا ان دونوں نے ’’فی رمضان‘‘ (کے الفاظ) کہے؟ کہا: اسی طرح کہا: آپ احتلام کے بغیر حالت جنابت میں صبح کرتے پھر روزہ (جاری) رکھتے۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
ہمیں ابن جریج نے خبر دی، انھوں نے کہا: مجھے عبدالملک بن ابی بکر بن عبدالرحمٰن (بن حارث بن ہشام مخزومی) نے (اپنے والد) ابو بکر سے خبر دی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (احادیث و واقعات سیرت) بیان کرتے ہوئے سنا، وہ اپنے بیان کے دوران کہ رہے تھے: جس پر جنابت کی حالت میں فجر کا وقت آ جائے تو وہ روزہ نہ رکھے۔ میں نے یہ بات۔۔۔ اپنے والد۔۔۔ عبدالرحمٰن بن حارث کو بتائی تو انھوں نے اس کا انکار کیا، اس پر حضرت عبدالرحمٰن چل پڑے اور میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا یہاں تک کہ ہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبدالرحمٰن نے ان دونوں سے اس (مسئلے) کے بارے میں سوال کیا، کہا: (جواب میں) ان دونوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ (احتلام کے) خواب کے بغیر حالت جنابت میں صبح کرتے، پھر آپﷺ روزہ رکھتے۔ پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ مروان کے پاس آ گئے، عبدالرحمٰن نے ان کے سامنے یہ بات بیان کی تو مروان نے کہا: کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم ضرور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاس جاؤ اور اس کی بات تردید کرو جو وہ کہتے ہیں۔ کہا: تو ہم حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے۔ اور (حدیث کا راوی) ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس اثناء میں (اپنےوالد عبداالرحمٰن کے ساتھ) موجود تھا۔ کہا: تو عبدالرحمان نے یہ ساراواقعہ ان کے سامنے بیان کیا تو حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: کیا (واقعی) ان دونوں (حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما) نے تم سے یہ بات کی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں! ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: وہ (اس مسئلے کو) زیادہ جاننے والی ہیں۔ پھر حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس (مسئلے) میں جو کہا کرتے تھے، اس کو حضرت فضل بن عباس کی طرف لوٹایا۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے یہ فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی۔ اور نبی کریم ﷺ سے (براہ راست) نہیں سنی، کہا: اس کے بعد ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس (بات) سے جو وہ اس معاملے میں کہا کرتے تھے، رجوع کر لیا۔ میں (ابن جریج) نے عبدالملک سے کہا: کیا ان دونوں نے ’’فی رمضان‘‘ (کے الفاظ) کہے؟ کہا: اسی طرح کہا: آپ احتلام کے بغیر حالت جنابت میں صبح کرتے پھر روزہ (جاری) رکھتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوبکر بن عبدالرحمان بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی روایات کے بیان میں، میں نے یہ روایت بھی سنی کہ جس کو فجر جنابت کی حالت میں پا لے وہ روزہ نہ رکھے، میں نے یہ بات اپنے باپ عبدالرحمان بن حارث کو بتائی انہوں نے اس کا انکار کیا، تو عبدالرحمان چلے اور میں بھی ساتھ تھا حتی کہ ہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عبدالرحمٰن نے ان دونوں سے یہ مسئلہ پوچھا: تو دونوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت جنابت میں صبح ہو جاتی تھی اور پھر روزہ رکھتے تھے اور جنابت بغیر احتلام کے ہوتی تھی (اس لیے کہ انبیاء کو احتلام نہیں ہوتا یعنی صحبت سے بیبیوں کے جنابت ہوتی ہے) کہا: ابوبکر نے پھر ہم گئے مروان کے پاس اور عبدالرحمٰن نے ان سے ذکر کیا۔ سو مروان نے کہا: میں تم کو قسم کو دیتا ہوں کہ تم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جاؤ اور ان کی بات کا جواب دے دو پھر ہم سیدنا ابوہریرہ ؓ کے پاس آئے اور ابوبکر ان سب باتوں میں حاضر تھا اور ذکر کیا عبدالرحمٰن نے تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ان دونوں بیبیوں نے فرمایا: تم سے؟ انہوں نے کہا: ہاں، تو سیدنا ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ بیشک وہ اور لوگوں سے زیادہ جانتی ہیں پھر سیدنا ابوہریرہ ؓ نے اس قول کی نسبت فضل بن عباس کی طرف کی اور کہا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی نے کہ میں نے یہ بات فضل سے سنی تھی تو اس کو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا۔ اس پر ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے فتویٰ (قول) سے رجوع کرلیا، ابن جریج نے عبدالملک سے پوچھا: کیا ان دونوں (ازواج) نے ’’في رمضان‘‘ کہا تھا، انہوں نے کہا، ایسے ہی کہا کہ آپﷺ بلا احتلام صبح کے وقت جنبی ہوتے تھے، پھر روزہ رکھ لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
ایک انسان بیوی سے تعلقات قائم کرتا ہے لیکن غسل طلوع فجر کے بعد نماز کے لیے کرتا ہے اور روزہ جنابت کی حالت میں ہی رکھ لیتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں اور تنگی نہیں ہے جمہور آئمہ اربعہ کا موقف یہی ہے۔ آیت مبارکہ: ﴿فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ﴾ اور احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہوتی ہے اور حضرت فضل کی حدیث کا تعلق یا تو ابتدائی دور سے ہے جبکہ رات کو تعلقات زن و شوہردرست نہ تھے بعد میں تعلقات کی اجازت مل گئی تو اس حالت میں روزہ رکھنا بھی درست ٹھہرایا، اس کا یہ مقصد ہے کہ بہتر اور افضل صورت یہی ہے کہ روزہ رکھنے سے پہلے غسل کر لے تاکہ غفلت وکاہلی دور ہو جائے اور آسانی کے ساتھ جامعت کے ساتھ مل سکے یا یہ مقصد ہو کہ وہ طلوع فجر تک تعلقات میں مشغول رہا طلوع فجر کے بعد فارغ ہوا جبکہ روزہ کا وقت نکل رہا تھا اور بعض حضرات کا خیال ہے کہ حدیث فضل کا تعلق اس انسان سے ہے جس نے عمداً غسل نہیں کیا حالانکہ وہ غسل کر سکتا تھا اگر اٹھا ہی دیر سے ہے وقت غسل نہیں ہے۔ تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ اور بعض حضرات کے نزدیک نفل روزہ درست ہے اور فرض درست نہیں ہے بعض کے نزدیک دونوں میں درست نہیں بعض کے نزدیک روزہ رکھے گا۔ لیکن قضائی دینی ہو گی بعض کے نزدیک فرض کی صورت میں قضائی ہے نفل کی صورت میں نہیں اور صحیح موقف جمہور کا ہے کیونکہ قرآن و حدیث دونوں اس کے مؤید ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Bakr (RA) (he is Abu Bakr (RA) bin Abdul Rahman bin Harith) reported: I heard Abu Hurairah (RA) narrating that he who is overtaken by dawn in a state of seminal emission should not observe fast. I made a mention of it to 'Abdul Rahman bin Harith (i. e. to his father) but he denied it. 'Abdul Rahman went and I also went along with him till we came to'A'isha and Umm Salamah (Allah be pleased with both of them) and Abdul Rahman asked them about it. Both of them said: (At times it so happened) that the Apostle of Allah (ﷺ) woke up in the morning in a state of junub (but without seminal emission in a dream) and observed fast. He (the narrator) said: We then proceeded till we went to Marwan and Abdul Rahman made a mention of it to him. Upon this Marwan said: I stress upon you (with an oath) that you better go to Abu Hurairah (RA) and refer to him what is said about it. So we came to Abu Hurairah (RA) and Abu Bakr (RA) had been with us throughout and 'Abdul Rahman made a mention of it to him, whereupon Abu Hurairah (RA) said: Did they (the two wives of the Holy Prophet) tell you this? He replied: Yes. Upon this ( Abu Hurairah (RA) ) said: They have better knowledge. Abu Hurairah (RA) then attributed that what was said about it to Fadl bin 'Abbas and said: I heard it from Fadl and not from the Apostle of Allah (ﷺ) . Abu Hurairah (RA) then retracted from what he used to say about it. Ibn Juraij (one of the narrators) reported: I asked 'Abdul Malik, if they (the two wives) said (made the statement) in regard to Ramadan, whereupon he said: It was so, and he (the Holy Prophet) (woke up in the) morning in a state of junub which was not due to the wet dream and then observed fast.