باب: سفر میں روزہ ترک کرنے والا جب کام کی ذمہ داری اٹھائے تو اس کا اجر
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The reward of the one who does not fast when travelling if he does any tasks that are required)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1120.
مجھے قزعہ نے حدیث سنائی، کہا: میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، ان پر لوگوں کا جھرمٹ لگا ہوا تھا جب لوگ ان کے پاس سے منتشر ہو گئے تو میں نے کہا: میں آپ سے اس چیز کے بارے میں سوال نہیں کروں گا جس کے بارے میں یہ لوگ سوال کرتے ہیں (میرا سوال دوسری چیز کے بارے میں ہے) میں نے ان سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف سفر کیا، اس وقت ہم روزے کی حالت میں تھے ہم نے ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو اور افطار کرنا تمہارے لیے زیادہ قوت کا باعث ہے‘‘ تو یہ رخصت تھی، ہم میں سے کچھ لوگ تھے جنھوں نے روزہ رکھا اور ہم میں سے بعض تھے جنھوں نے روزہ نہ رکھا۔ پھر ہم نے اگلی منزل پر پڑاؤ ڈالا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’تم صبح کے وقت دشمن سے سامنا کرو گے اور چھوڑنا تمھارے لیے زیادہ طاقت کا باعث ہو گا لہٰذا تم روزہ نہ رکھو،‘‘ اور یہ حکم قطعی تھا اس لیے ہم نے روزہ نہ رکھا، پھر انھوں نے کہا: اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ہم سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزہ بھی رکھتے دیکھا۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
مجھے قزعہ نے حدیث سنائی، کہا: میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، ان پر لوگوں کا جھرمٹ لگا ہوا تھا جب لوگ ان کے پاس سے منتشر ہو گئے تو میں نے کہا: میں آپ سے اس چیز کے بارے میں سوال نہیں کروں گا جس کے بارے میں یہ لوگ سوال کرتے ہیں (میرا سوال دوسری چیز کے بارے میں ہے) میں نے ان سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف سفر کیا، اس وقت ہم روزے کی حالت میں تھے ہم نے ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو اور افطار کرنا تمہارے لیے زیادہ قوت کا باعث ہے‘‘ تو یہ رخصت تھی، ہم میں سے کچھ لوگ تھے جنھوں نے روزہ رکھا اور ہم میں سے بعض تھے جنھوں نے روزہ نہ رکھا۔ پھر ہم نے اگلی منزل پر پڑاؤ ڈالا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’تم صبح کے وقت دشمن سے سامنا کرو گے اور چھوڑنا تمھارے لیے زیادہ طاقت کا باعث ہو گا لہٰذا تم روزہ نہ رکھو،‘‘ اور یہ حکم قطعی تھا اس لیے ہم نے روزہ نہ رکھا، پھر انھوں نے کہا: اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ہم سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزہ بھی رکھتے دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قزعہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ ان کے پاس بہت سے لوگ جمع ہو چکے تھے جب لوگ ان کے پاس سے بکھرگئے تو میں نے کہا جو یہ لوگ پوچھ رہے تھے میں اس کے بارے میں آپ سے نہیں پوچھوں گا، میں نے ان سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا؟ تو انھوں نے بتایا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کے سفر کے لیےنکلے جبکہ ہم روزہ دار تھے تو ہم ایک منزل پر اترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو اور روزہ نہ رکھنا یہ تمھارے لیے زیادہ طاقت بخش ہے۔‘‘ یہ روزہ نہ رکھنے کی رخصت تھی تو ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے نہ رکھاپھر ہم ایک دوسری منزل پر اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم صبح دشمن تک پہنچ جاؤگے اور روزہ نہ رکھنا یہ تمھارے لیے زیادہ طاقت کا باعث ہو گا لہٰذا روزہ نہ رکھو،‘‘ اور یہ حکم قطعی تھا اس لیے ہم نے روزہ نہ رکھا پھر انھوں نے بتایا میں نے اس کے بعد سفر میں ساتھیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزہ رکھتے دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Qaza'a reported: I came to Abu Sa'id al-Khudri (RA) and he was surrounded (by people), and when they dispersed I said to him: I am not going to ask you about what these people were asking. I ask you about fasting on a journey. Upon this he said: We travelled with the Messenger of Allah (ﷺ) towards Makkah and we had been observing fast. We halted at a place. There the Messenger of Allah (ﷺ) said: You are nearing your enemy and breaking of fast would give you greater strength, and that was a concession (given to us). But some of us continued to observe the fast and some of us broke it. We then got down at another place and he (the Holy Prophet) said: You are going to encounter the enemy in the morning and breaking of the fast would give you strength, so break the fast. As it was a point of stress, so we broke the fast. But subsequently we saw ourselves observing the fast with the Messenger of Allah (ﷺ) on a journey.