باب: جس نے عاشورہ کے دن میں (کچھ)کھالیا تووہ اپنے دن کے باقی حصے میں (کھانے سے )رک جائے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Whoever eats on'Ashura, let him refrain (from eating) for the rest of the day)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1136.
بشر بن مفضل نے کہا: ہمیں خالد بن ذکوان نے حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے عاشورہ کی صبح کو انصارکی بستیوں کی طرف جو مدینہ کے ارد گرد تھیں، یہ پیغام بھیجا: جس نے صبح روزے کی حالت میں کی ہے وہ اپنا روزہ پورا کرے اور جس نے صبح افطار کی حالت میں کی وہ اپنے دن کے باقی حصے کا روزہ پورا کرے۔‘‘ اس کے بعد ہم خود روزہ رکھتے اور اگر اللہ چاہتا تو اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے اور ہم (ان کے ہمراہ) مسجد کی طرف جاتے اور ان کے لیے اون کا کھلونا (گڑیا) بنا لتے، جب ان میں سے کوئی افطار کے قریب، کھانے کے لیے روتا تو ہم (ا سکا دل بہلانے کے لیے) وہ (کھلونا) اسے دے دیتے۔
تشریح:
فائدہ:
یہ اس حکم کی تفصیل ہے جو آپ ﷺ نے رمضان کی فرضیت سے ایک سال پہلے یکم ہجری کو دیا تھا۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
بشر بن مفضل نے کہا: ہمیں خالد بن ذکوان نے حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے عاشورہ کی صبح کو انصارکی بستیوں کی طرف جو مدینہ کے ارد گرد تھیں، یہ پیغام بھیجا: جس نے صبح روزے کی حالت میں کی ہے وہ اپنا روزہ پورا کرے اور جس نے صبح افطار کی حالت میں کی وہ اپنے دن کے باقی حصے کا روزہ پورا کرے۔‘‘ اس کے بعد ہم خود روزہ رکھتے اور اگر اللہ چاہتا تو اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے اور ہم (ان کے ہمراہ) مسجد کی طرف جاتے اور ان کے لیے اون کا کھلونا (گڑیا) بنا لتے، جب ان میں سے کوئی افطار کے قریب، کھانے کے لیے روتا تو ہم (ا سکا دل بہلانے کے لیے) وہ (کھلونا) اسے دے دیتے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
یہ اس حکم کی تفصیل ہے جو آپ ﷺ نے رمضان کی فرضیت سے ایک سال پہلے یکم ہجری کو دیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ کے آس پاس کی انصارکی بستیوں میں اطلاع بھیجی کہ ’’جنہوں نے صبح روزہ کی حالت میں کی (ابھی تک کچھ کھایا پیا نہیں) وہ اپنا روزہ پورا کریں اور جنھوں نے صبح افطار کی حالت میں کی (کچھ کھا پی لیا ہے) وہ دن کا باقی حصہ کا روزہ پورا کریں۔‘‘ اس کے بعد ہم خود روزہ رکھتے تھے اور ان شاء اللہ اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے اور ہم مسجد کو چلے جاتے تو ان کے لیے روئی کا کھلونا (گڑیا) بناتے جب ان میں سے کوئی کھانے کے لیے روتا تو ہم انہیں افطار تک اس گڑیا کے ذریعہ بہلا کر لے جاتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Rubayyi' daughter of Mu'awwidh bin 'Afra' said that the Messenger of Allah (ﷺ) sent (a person) on the morning of Ashura to the villages of Ansar around Madinah (with this message): He who got up in the morning fasting (without eating anything) he should complete his fast, and he who had had his breakfast in the morning, he should complete the rest of the day (without food). The Companions said; We henceforth observed fast on it (on the day of 'Ashura) and, God willing, made our children observe that. We went to the mosque and made toys out of wool for them and when anyone felt hungry and wept for food we gave them these toys till it was the time to break the fast.