باب: مکہ حرم ہے ‘اس میں شکار کرنا ‘اس کی گھاس اور درخت کا ٹنا اور اعلان کرنے والے کے سوا(کسی کا)یہاں سے کوئی پڑی ہوئی چیز اٹھانا ہمیشہ کے لیے حرام ہے
)
Muslim:
The Book of Pilgrimage
(Chapter: The sanctity of Makkah and the sanctity of its game, grasses, trees and lost property, except for the one who announces it, is forever)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1354.
ابو شریح عدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے عمرو بن سعید سے، جب وہ (ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے خلا ف) مکہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا کہا: اے امیر! مجھے اجا زت دیں، میں آپ کو ایک ایسا فرمان بیان کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمایا تھا، اسے میرے دونوں کا نوں نے سنا، میرے دل نے یاد رکھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے الفا ظ بو لے تو میری دونوں آنکھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعا لیٰ کی حمد و ثنا بیان کی ،پھر فرمایا: ’’بلا شبہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرمت عطا کی ہے لوگوں نے نہیں، کسی آدمی کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو حلال نہیں کہ وہ اس میں خون بہا ئے اور نہ (یہ حلال ہے کہ) کسی درخت کو کا ٹے۔ اگر کو ئی شخص اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑا ئی کی بنا پر رخصت نکا لے تو اسے کہہ دینا: بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجا زت دی تھی، تمھیں اس کی اجا زت نہیں دی تھی، اور آج ہی اس کی حرمت اسی طرح واپس آ گئی ہے جیسے کل اس کی حرمت موجود تھی، اور جو حا ضر ہے (یہ بات) اس تک پہنچا دے جو حا ضر نہیں۔‘‘ اس پر ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا: (جواب میں) عمرو نے تم سے کیا کہا؟ (کہا:) اس نے جواب دیا: اے ابو شریح! میں یہ بات تم سے زیادہ جا نتا ہوں حرم کسی نافر مان (باغی) کو، خون کر کے بھا گ آنے والے کو اور چوری کر کے فرار ہو نے والے کو پناہ نہیں دیتا۔
تشریح:
فوائدومسائل
نافرمان كی بات من گھڑت تھی۔ ہاں جس پر حدعائد ہوتی ہو یا قصاص، اسے پناہ حاصل نہیں ہوتی۔
ابو شریح عدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے عمرو بن سعید سے، جب وہ (ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے خلا ف) مکہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا کہا: اے امیر! مجھے اجا زت دیں، میں آپ کو ایک ایسا فرمان بیان کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمایا تھا، اسے میرے دونوں کا نوں نے سنا، میرے دل نے یاد رکھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے الفا ظ بو لے تو میری دونوں آنکھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعا لیٰ کی حمد و ثنا بیان کی ،پھر فرمایا: ’’بلا شبہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرمت عطا کی ہے لوگوں نے نہیں، کسی آدمی کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو حلال نہیں کہ وہ اس میں خون بہا ئے اور نہ (یہ حلال ہے کہ) کسی درخت کو کا ٹے۔ اگر کو ئی شخص اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑا ئی کی بنا پر رخصت نکا لے تو اسے کہہ دینا: بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجا زت دی تھی، تمھیں اس کی اجا زت نہیں دی تھی، اور آج ہی اس کی حرمت اسی طرح واپس آ گئی ہے جیسے کل اس کی حرمت موجود تھی، اور جو حا ضر ہے (یہ بات) اس تک پہنچا دے جو حا ضر نہیں۔‘‘ اس پر ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا: (جواب میں) عمرو نے تم سے کیا کہا؟ (کہا:) اس نے جواب دیا: اے ابو شریح! میں یہ بات تم سے زیادہ جا نتا ہوں حرم کسی نافر مان (باغی) کو، خون کر کے بھا گ آنے والے کو اور چوری کر کے فرار ہو نے والے کو پناہ نہیں دیتا۔
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل
نافرمان كی بات من گھڑت تھی۔ ہاں جس پر حدعائد ہوتی ہو یا قصاص، اسے پناہ حاصل نہیں ہوتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو شریح عدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا جبکہ وہ (یزید کی طرف سے گورنر تھا اور اس کے حکم سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے خلاف) مکہ پر چڑھائی کرنے کے لیے لشکر تیار کر کے روانہ کر رہا تھا کہ: اے امیر! مجھے اجازت دیجئے، کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان بیان کروں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے اگلے دن (مکہ میں) ارشاد فرمایا تھا، میں نے اپنے کانوں سے وہ فرمان سنا تھا، اور میرے دل و دماغ نے اسے یاد کر لیا تھا، اور جس وقت وہ فرمان آپ کی زبان مبارک سے صادر ہو رہا تھا، اس وقت میری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا تھا: ’’مکہ کو اللہ تعالیٰ نے محترم قرار دیا ہے، اس کی حرمت یا احترام کا فیصلہ لوگوں نے نہیں کیا، اس لیے جو انسان اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ یہاں خون ریزی کرے، اور وہ یہاں کے درختوں کو بھی نہ کاٹے، اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال کو سند بنا کر رخصت کا اپنے لیے جواز نکالے، تو اس کو کہہ دو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی، اور تجھے اجازت نہیں دی ہے، اور مجھے بھی بس، اللہ تعالیٰ نے دن کے تھوڑے سے وقت کے لیے (عارضی اور وقتی) اجازت دی تھی، اور آج اس وقت اس طرح حرمت لوٹ آئی جس طرح حرمت موجود تھی، (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) جو لوگ یہاں موجود ہیں، (جنہوں نے میری بات سنی ہے) وہ دوسرے غیر موجود لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں‘‘ تو ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے دریافت کیا، آپ کو عمرو نے کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا، اس نے کہا کہ: اے ابو شریح! میں یہ باتیں تم سے زیادہ جانتا ہوں، حرم کسی نافرمان کو پناہ نہیں دے سکتا، نہ ہی کسی ایسے آدمی کو جو کسی کا ناحق خون کر کے بھاگ آئے، یا کسی کا نقصان کر کے بھاگ آئے، پناہ دے سکتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
خُرْبَةٌ يا خَرْبَةٌ کا اصل معنی اونٹ چرانا ہے، اس سے مراد زمین میں چوری یا ڈاکہ سے فساد پھیلانا بھی مراد لیا جاتا ہے۔
فوائد ومسائل
1۔ حرم کےاندر جنگ وجدال کسی صورت میں جائز نہیں ہے، اگر اہل مکہ کسی عادل حکمران کے خلاف بغاوت کردیں، تو اس کے بارے میں دونظریات ہیں، بقول امام ماوردی، جمہور کے نزدیک، جب تک لڑائی سے بچنا ممکن ہو، لڑائی سے گریز کرتے ہوئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائےگا، جس سے بغاوت کو فرو کیا جاسکے، اگرلڑائی کے بغیر چارہ نہ رہے تو پھر باغیوں سے لڑائی لڑی جائے گی لیکن ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے، جس سے وہ لوگ بھی متاثر ہوں جوجنگ میں شریک نہیں ہوتے، باغیوں سے جنگ حقوق اللہ میں داخل ہے، اور حقوق اللہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن دوسروں کے نزدیک قتال کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔ احادیث کے ظاہر کا تقاضا یہی ہے۔ (فتح الباری ج4 ص 63)اور حضرت ابوشریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی سمجھا تھا، اس لیے ابوشریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمرو بن سعید کے جواب میں کہا تھا۔ (قد كنتُ شاهدًا وكنتَ غائبًا وقد أمرنا أن يبلغ شاهدُنا غائبنَا وقد بلغتُكَ) (میں حاضرتھا، اور تم موجود نہیں تھے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ جو یہاں موجود ہیں، وہ ان تک بات پہنچا دیں، جو حاضر نہیں ہیں، اور میں نے تم تک یہ بات پہنچا دی ہے۔) (فتح الباری ج4 ص59) حضرت ابوشریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مقصد منشاء سمجھنے کے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں، جن کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی، اور جنھوں نے اس کا موقع اورمحل دیکھا۔ 2۔ اس حدیث میں ہے جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے مکہ میں خون بہانا جائز نہیں ہے اور اللہ نے اپنے رسول کو کچھ وقت کے لیے قتال کی اجازت دی تھی، اس سے جمہور نے یہ استدلال کیا ہے کہ مکہ جبروقوت سے فتح ہوا تھا، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ پر احسان وکرم فرماتے ہوئے انہیں طُلَقَاء (آزاد) قرار دیا،ٰ اور ان کے اموال کو غنیمت کا مال نہ ٹھہرایا اور نہ ان کے اہل وعیال کوقیدی بنایا، لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکہ صلحاً فتح ہوا(سبل السلام ج2 ص 292) 3۔ اگر کوئی انسان حرم کے اندر قابل حد جرم کا ارتکاب کرتا ہے، تو بالاتفاق اس پر حد جاری کی جائے گی، لیکن اگر کوئی انسان حرم سے باہر جرم کا ارتکاب کر کے حرم میں پناہ لیتا ہے، تو اس کے بارے میں اختلاف ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس پر حد قائم کی جائے گی، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حرم کے اندرحد نہ لگائی جائےگی، بلکہ اس کا معاشرتی مقاطعہ کر کے یا وعظ ونصیحت کر کے حرم سے باہر نکالا جائے گا اور خارج حرم، حد قائم کی جائے گی، حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے اس مؤقف کی پرزور انداز میں تائید کی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Shuraih al-'Adawi reported that he said to Amr bin Sa'id when he was sending troops to Makkah: Let me tell you something. O Commander, which Allah's Messenger (ﷺ) said on the day following the Conquest which my ears heard and my heart has retained, and my eyes saw as he spoke it. He praised Allah and extolled Him and then said: Allah, not men, has made Makkah sacred; so it is not permissible for any person believing in Allah and the Last Day to shed blood in it, or lop a tree in it. If anyone seeks a concession on the basis of fighting of Allah's Messenger (ﷺ), tell him that Allah permitted His Messenger, but not you, and He gave him permission only for an hour on one day, and its sacredness was restored on the very day like that of yesterday. Let him who is present convey the information to him who is absent. It was said to Abu Shuraih: What did Amr say to you? He said: I am better informed of that than you, Abu Shuraih, but the sacred territory does not grant protection to one who is disobedient, or one who runs away after shedding blood, or one who runs away after committing