باب: کنکر پھینک کر بیع کرنا اور ایسی بیع کرنا جس میں دھوکا ہو ‘باطل ہیں
)
Muslim:
The Book of Transactions
(Chapter: The invalidity of Hasah transactions and transactions involving ambiguity)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1514.
لیث نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما) سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ آپﷺ نے حبل الحبلہ کی بیع سے منع فرمایا ہے۔
تجارت انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ انسانوں کو ہر وقت مختلف اشیاء کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ اس کی تمام اشیاء بیک وقت حاصل کر کے ان تمام کا ذ خیرہ نہیں کر سکتا۔ بعض اشیاء کو زیادہ مقدار میں ذخیرہ کیا ہی نہیں جاسکتا، اس لیے ایسے لوگوں کی موجودگی جومختلف اشیاء کو لائیں ، رکھیں اور ضرورت مندوں کو قیمت مہیا کر میں ناگزیر ہے۔
خرید وفروخت کے معاملات اگر انصاف پر مبنی ، دھوکے اور فریب سے پاک اور ضرر سے محفوظ ہوں تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا ہوتا نہیں۔ انسانی معاشرے میں تجارت کی تاریخ جتنی پرانی ہے، تجارت کی آڑ میں لوگوں کے استحصال کی تاریخ بھی تقریبا اتنی ہی پرانی ہے۔ اسلام کا مشن یہی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام معاملات عدل و انصاف، انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور اجتمائی اور انفرادی فلاح و بہبود پر استوار کیے جائیں۔ انسانی تاریخ میں تجارت کو سب سے پہلے ان بنیادوں پر استوارکرنے کا سہرا اسلام کے سر ہے۔
بعثت سے پہلے عرب سمیت پوری دنیا میں ایسے سودوں ، خرید و فروخت کی ایسی صورتوں کی بھر مارتھی جن میں کسی نہ کسی فریق کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ خرید وفروخت کے طریقوں میں دھوکا شامل تھا۔ اس حوالے سے کیے گئے معاہدوں میں فریب موجود تھا۔ قیمت اور اشیاء اجناس، منفعت یا خدمات جن کا لین دین ہوتا تھا ، ان سب میں فریب شامل تھا۔ عرب میں فریب پرمبی بیع کی جو صورتیں رائج تھیں ان میں ملامسہ اور منابذہ بھی تھیں ۔ اگر خر یدا غور کیے بغیر کپڑے کو چھو لے تو بیع پکی ہوگئی ، مثلا: تم اپنا کپڑا میری طرف پھینک دو، میں اپنا کیر تمھاری طرف پھینک دیتا ہوں سودا کیا ہو گیا، جس کی جو قسمت اسے مل جائے گا۔ میں ایک کنگری پھینکوں گا جس کپڑے کی جس لمبائی تک جائے گی، وہ تمھارا ‘‘ اس میں سوچنےسمجھنے کی گنجائش نہ صحیح پیمائش کی ۔ وہ ایسی چیزوں کی بیع بھی کر لیتے تھے جو ابھی وجود میں نہیں آئیں، اس کا دیکھنا مکن نہ رکھنا ، مثلا: یہ کہ اونٹنی بچہ دے گی ، وہ حاملہ ہو کر پھر بچہ دے گی وہ تمھارا ہوگا ۔ یہ حبل الحبلہ بیع کہلاتی تھی۔
مصنوعی طریقے سے قیمت بڑھانے کے حیلے کیے جاتے تھے۔ اب بھی کیے جاتے ہیں۔ فرضی گا ہک کھڑےکر کے ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بڑھائی جاتی تھیں ۔ اسے نجش کہا جاتا تھا۔ اب اشتہار بازی کے ذریعے باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں چیز آپ کی شدید ضرورت ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ خریدنے میں بھی فریب کا چلن تھا۔ راستے میں جا کر، منڈی کے بھاؤ سے بے خبر مال لانے والوں سے اشیاء خریدنا ، جوشخص منڈی کے ریٹ پر اپنی اشیاء فروخت کرنا چاہتا ہے، اسے زیادہ قیمت کا لالچ دے کر فروخت کی ذمہ داری لینا اور قیمتیں بڑھا کر خود فائدہ اٹھانا اور مہنگائی پیدا کرتا۔ دودھ دینے والے جانورکے تھنوں میں دودھ روک کر زیادہ قیمت پر بیچنا، اشیاءکو تولے یا نا پے بغیر ان کا سودا کر لینا ، باغ کے درختوں پر بور لگتے ہیں یا اس سے بھی پہلے ان کے پھل کا سودا کر دیتا چاہیے بورہی نہ لگے،یالگے تو آندھی یا بیماری وغیرہ کا شکار ہو کر ضائع ہو جائے ۔ فصل پکنے کے بعد اناج اکٹھا کر کے وزن باماپ سے بچنے کی بجائے کھڑی فصل کو اناج کی متعین مقدار کے عوض بیچ دینا، چیز کا عیب چھپا کر دھوکے سےبیچ دینا، غیر منصفانہ طریقے سے زمین کو اجرت پر دینا، یہ سب دھوکے اور فریب کی صورتیں معاشرے میں رائج تھیں۔ رسول اللہ ﷺنے فریب مبنی لین دین کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیا۔ دیکھ بھال کر، پرکھ کر اور تسلی سے قیمت چکا کر سودا کرنےکے طریقے رائج فرمائے ۔ لین دین کرنے والے فریقوں کو سودا ہو جانے کے بعد بھی مناسب وقت تک اس کی واپسی کا اختیار دیا۔ عیب اور دھوکے کی بنا پر پتہ لگنے تک واپسی کو یقینی بنایا ۔ غرض چیز، قیمت، خریدار فروخت کرنے والے ، خرید و فروخت کی صورت اور شرائط ، تمام اجزائےبیع کے حوالے سے دیانت و امانت، شفافیت، حقوق کی پاسداری اور کسی بھی غلطی کے ازالے کو یقینی بنایا۔ ان اصلاحات کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کا انداز تجارت انتہائی مقبول ہو گیا۔ مسلمان تاجر اسلامی معاشرے کے نقیب بن گئے اور عالمی تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ پوری دنیا نے ان میں سے اکثر اصولوں کو تجارت کی بنیاد کے طور پر اپنا لیا۔ بعض معاشروں نے البتہ سود اور حرام چیزوں کی خرید وفروخت کونئی سے نئی صورتوں میں نہ صرف جاری رکھا بلکہ ان کے ذریعے سے دنیا بھر کا استحصال کیا اور ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لین دین کے پورے نظام کا بغور جائزہ لیا جائے تو انصاف اور اجتماعی فلاح کی ضمانت انہی اصولوں پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے جو اسلام نے رائج کیے ہیں ۔ افسوں کہ خود مسلمان انصاف اور فلاح کے ان اصولوں کوچھوڑ کر ظالمانہ طریقوں پر عمل پیرا ہو گئے اور تجارت میں بھی شدید پسماندگی کا شکار ہو گئے ۔ دوسرے معاشروں نے جس حد تک دیانت و امانت کے اسلامی اصولوں کو اپنایا اسی نسبت سے وہ آگے بڑھ گئے۔ صحیح مسلم کی کتاب البیوع کے بعد کتاب المساقاة والمزارعد بھی لین دین کے اصولوں پر محیط ہے۔
لیث نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما) سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ آپﷺ نے حبل الحبلہ کی بیع سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے حاملہ جانور کے حمل کی بیع سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
حبله: حابل کی جمع ہے، جس طرح ظالم کی جمع ظلمه ہے یا كاتب کی جمع كتبه ہے، بعض کے نزدیک یہ مصدر ہے اور مجہول کے معنی میں ہے اور بقول علامہ نووی، حبل کا لفظ عورتوں کے لیے خاص ہے اور حیوانات کے لیے حمل کا لفظ ہے، اس لیے بکری یا اونٹنی کو حاملہ کہتے ہیں، حیوانات کے لیے حابلہ کا لفظ صرف اس حدیث میں آیا ہے۔ اور بقول امام نووی اس پر اہل لغت کا اتفاق ہے، لیکن علامہ عینی نے لکھا ہے کہ حابلہ کا لفظ ہر مونث کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ حَبَل الحَبله کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں: (1) کسی چیز کی قیمت اس وقت ادا کرنا جب حاملہ اونٹنی بچہ جنے گی اور وہ بچہ بڑا ہو کر، بچہ دے، بخاری شریف کی روایت کی ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خود یہی تفسیر کی ہے۔ (2) کسی چیز کی قیمت اس وقت ادا کرنا، جب مخصوص اونٹنی اپنا حمل وضع کرے گی، امام نافع نے یہی تفسیر کی ہے، ابن المسیب، امام مالک، امام شافعی اور فقہاء کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ (3) کسی چیز کی قیمت اس وقت ادا کرنا، جب حاملہ اونٹنی بچہ دے اور پھر وہ بچہ بڑا ہو کر حاملہ ہو جائے۔ لیکن اس کے حمل کے وضع ہونے کی شرط نہیں ہے، اگلی روایت سے یہی معلوم ہوتا ہے اور امام ابو اسحاق نے اس کو اختیار کیا ہے، ان تینوں صورتوں میں ممانعت کا سبب یہ ہے، قیمت کی ادائیگی کا وقت و مدت مجہول ہے۔ (4) حاملہ اونٹنی کے پیٹ کے بچہ کی یا پیٹ کے بچے کے بچہ کی بیع کرنا، امام ترمذی نے اس کو اختیار کیا ہے۔ امام ابو عبیدہ، ابو عبید، احمد اور اسحاق کا یہی نظریہ ہے اور اس کے منع ہونے کا سبب مبیع یعنی جو چیز بیچی گئی ہے کا مجہول ہونا ہے کیونکہ معلوم نہیں ہے اونٹنی کا بچہ پیدا ہوتا ہے یا نہیں، دوسرے بچہ کی پیدائش تو بعد کی بات ہے، اس طرح اس میں غرر بھی ہے، اس لیے امام بخاری نے، اس کو بیع الغرر کے تحت بیان کیا ہے۔اور بعض حضرات نے اس کا معنی انگوروں کا ان کے پکنے کی صلاحیت کو پہنچنے سے پہلے بیچنا بیان کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah (b. 'Umar) (RA) said that Allah's Messenger (ﷺ) forbade the transaction called habal al-habala.