Muslim:
The Book of Transactions
(Chapter: Lending Land)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1550.
حماد بن زید نے ہمیں عمرو (بن دینار) سے خبر دی کہ مجاہد نے طاؤس سے کہا: ہمارے ساتھ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے کے پاس چلو اور ان سے ان کے والد کے واسطے سے نبی ﷺ سے روایت کردہ حدیث سنو، کہا: انہوں (طاؤس) نے انہیں ڈانٹا اور کہا: اللہ کی قسم: اگر مجھے علم ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے تو میں یہ کام (کبھی) نہ کرتا لیکن مجھے اس شخص نے حدیث بیان کی جو اسے ان سب سے زیادہ جاننے والا ہے، ان کی مراد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اپنی زمین اپنے بھائی کو عاریتا دے، یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اس پر متعین پیداوار وصول کرے۔" (اس سے اللہ کی رضا بھی حاصل ہو گی اور جھگڑوں سے محفوظ بھی رہے گا۔‘‘
تجارت انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ انسانوں کو ہر وقت مختلف اشیاء کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ اس کی تمام اشیاء بیک وقت حاصل کر کے ان تمام کا ذ خیرہ نہیں کر سکتا۔ بعض اشیاء کو زیادہ مقدار میں ذخیرہ کیا ہی نہیں جاسکتا، اس لیے ایسے لوگوں کی موجودگی جومختلف اشیاء کو لائیں ، رکھیں اور ضرورت مندوں کو قیمت مہیا کر میں ناگزیر ہے۔
خرید وفروخت کے معاملات اگر انصاف پر مبنی ، دھوکے اور فریب سے پاک اور ضرر سے محفوظ ہوں تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا ہوتا نہیں۔ انسانی معاشرے میں تجارت کی تاریخ جتنی پرانی ہے، تجارت کی آڑ میں لوگوں کے استحصال کی تاریخ بھی تقریبا اتنی ہی پرانی ہے۔ اسلام کا مشن یہی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام معاملات عدل و انصاف، انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور اجتمائی اور انفرادی فلاح و بہبود پر استوار کیے جائیں۔ انسانی تاریخ میں تجارت کو سب سے پہلے ان بنیادوں پر استوارکرنے کا سہرا اسلام کے سر ہے۔
بعثت سے پہلے عرب سمیت پوری دنیا میں ایسے سودوں ، خرید و فروخت کی ایسی صورتوں کی بھر مارتھی جن میں کسی نہ کسی فریق کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ خرید وفروخت کے طریقوں میں دھوکا شامل تھا۔ اس حوالے سے کیے گئے معاہدوں میں فریب موجود تھا۔ قیمت اور اشیاء اجناس، منفعت یا خدمات جن کا لین دین ہوتا تھا ، ان سب میں فریب شامل تھا۔ عرب میں فریب پرمبی بیع کی جو صورتیں رائج تھیں ان میں ملامسہ اور منابذہ بھی تھیں ۔ اگر خر یدا غور کیے بغیر کپڑے کو چھو لے تو بیع پکی ہوگئی ، مثلا: تم اپنا کپڑا میری طرف پھینک دو، میں اپنا کیر تمھاری طرف پھینک دیتا ہوں سودا کیا ہو گیا، جس کی جو قسمت اسے مل جائے گا۔ میں ایک کنگری پھینکوں گا جس کپڑے کی جس لمبائی تک جائے گی، وہ تمھارا ‘‘ اس میں سوچنےسمجھنے کی گنجائش نہ صحیح پیمائش کی ۔ وہ ایسی چیزوں کی بیع بھی کر لیتے تھے جو ابھی وجود میں نہیں آئیں، اس کا دیکھنا مکن نہ رکھنا ، مثلا: یہ کہ اونٹنی بچہ دے گی ، وہ حاملہ ہو کر پھر بچہ دے گی وہ تمھارا ہوگا ۔ یہ حبل الحبلہ بیع کہلاتی تھی۔
مصنوعی طریقے سے قیمت بڑھانے کے حیلے کیے جاتے تھے۔ اب بھی کیے جاتے ہیں۔ فرضی گا ہک کھڑےکر کے ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بڑھائی جاتی تھیں ۔ اسے نجش کہا جاتا تھا۔ اب اشتہار بازی کے ذریعے باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں چیز آپ کی شدید ضرورت ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ خریدنے میں بھی فریب کا چلن تھا۔ راستے میں جا کر، منڈی کے بھاؤ سے بے خبر مال لانے والوں سے اشیاء خریدنا ، جوشخص منڈی کے ریٹ پر اپنی اشیاء فروخت کرنا چاہتا ہے، اسے زیادہ قیمت کا لالچ دے کر فروخت کی ذمہ داری لینا اور قیمتیں بڑھا کر خود فائدہ اٹھانا اور مہنگائی پیدا کرتا۔ دودھ دینے والے جانورکے تھنوں میں دودھ روک کر زیادہ قیمت پر بیچنا، اشیاءکو تولے یا نا پے بغیر ان کا سودا کر لینا ، باغ کے درختوں پر بور لگتے ہیں یا اس سے بھی پہلے ان کے پھل کا سودا کر دیتا چاہیے بورہی نہ لگے،یالگے تو آندھی یا بیماری وغیرہ کا شکار ہو کر ضائع ہو جائے ۔ فصل پکنے کے بعد اناج اکٹھا کر کے وزن باماپ سے بچنے کی بجائے کھڑی فصل کو اناج کی متعین مقدار کے عوض بیچ دینا، چیز کا عیب چھپا کر دھوکے سےبیچ دینا، غیر منصفانہ طریقے سے زمین کو اجرت پر دینا، یہ سب دھوکے اور فریب کی صورتیں معاشرے میں رائج تھیں۔ رسول اللہ ﷺنے فریب مبنی لین دین کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیا۔ دیکھ بھال کر، پرکھ کر اور تسلی سے قیمت چکا کر سودا کرنےکے طریقے رائج فرمائے ۔ لین دین کرنے والے فریقوں کو سودا ہو جانے کے بعد بھی مناسب وقت تک اس کی واپسی کا اختیار دیا۔ عیب اور دھوکے کی بنا پر پتہ لگنے تک واپسی کو یقینی بنایا ۔ غرض چیز، قیمت، خریدار فروخت کرنے والے ، خرید و فروخت کی صورت اور شرائط ، تمام اجزائےبیع کے حوالے سے دیانت و امانت، شفافیت، حقوق کی پاسداری اور کسی بھی غلطی کے ازالے کو یقینی بنایا۔ ان اصلاحات کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کا انداز تجارت انتہائی مقبول ہو گیا۔ مسلمان تاجر اسلامی معاشرے کے نقیب بن گئے اور عالمی تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ پوری دنیا نے ان میں سے اکثر اصولوں کو تجارت کی بنیاد کے طور پر اپنا لیا۔ بعض معاشروں نے البتہ سود اور حرام چیزوں کی خرید وفروخت کونئی سے نئی صورتوں میں نہ صرف جاری رکھا بلکہ ان کے ذریعے سے دنیا بھر کا استحصال کیا اور ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لین دین کے پورے نظام کا بغور جائزہ لیا جائے تو انصاف اور اجتماعی فلاح کی ضمانت انہی اصولوں پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے جو اسلام نے رائج کیے ہیں ۔ افسوں کہ خود مسلمان انصاف اور فلاح کے ان اصولوں کوچھوڑ کر ظالمانہ طریقوں پر عمل پیرا ہو گئے اور تجارت میں بھی شدید پسماندگی کا شکار ہو گئے ۔ دوسرے معاشروں نے جس حد تک دیانت و امانت کے اسلامی اصولوں کو اپنایا اسی نسبت سے وہ آگے بڑھ گئے۔ صحیح مسلم کی کتاب البیوع کے بعد کتاب المساقاة والمزارعد بھی لین دین کے اصولوں پر محیط ہے۔
حماد بن زید نے ہمیں عمرو (بن دینار) سے خبر دی کہ مجاہد نے طاؤس سے کہا: ہمارے ساتھ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے کے پاس چلو اور ان سے ان کے والد کے واسطے سے نبی ﷺ سے روایت کردہ حدیث سنو، کہا: انہوں (طاؤس) نے انہیں ڈانٹا اور کہا: اللہ کی قسم: اگر مجھے علم ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے تو میں یہ کام (کبھی) نہ کرتا لیکن مجھے اس شخص نے حدیث بیان کی جو اسے ان سب سے زیادہ جاننے والا ہے، ان کی مراد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اپنی زمین اپنے بھائی کو عاریتا دے، یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اس پر متعین پیداوار وصول کرے۔" (اس سے اللہ کی رضا بھی حاصل ہو گی اور جھگڑوں سے محفوظ بھی رہے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام مجاہد نے، امام طاؤس سے کہا، رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے کے ہاں میرے ساتھ چلو، اس سے اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت سنو! تو طاؤس نے اسے جھڑکا، کہا، اللہ کی قسم! اگر میں یہ جان لوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بٹائی پر زمین دینے سے منع فرمایا ہے، تو میں یہ کام نہ کروں، لیکن مجھے اس شخصیت (ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ) نے جو ان سب سے زیادہ اس مسئلہ سے آگاہ ہیں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی کو زمین کاشت کے لیے دے دے، تو اس کے لیے بہتر ہے کہ اس سے متعین مقدار میں پیداوار لے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
فاسمع منه الحديث میں فاسمع کو امر کا صیغہ بنایا جائے، کیونکہ امام طاؤس بٹائی پر زمین دیتے تھے، اس لیے امام مجاہد نے انہیں روکنے کے لیے یہ حدیث سننے کے لیے کہا اور انہوں نے جواباً ان کو سرزنش کی، کہ مجھے معلوم ہے، مزارعت کی کون سی قسم ممنوع ہے، جس صورت میں، میں بٹائی پر زمین دیتا ہوں، وہ ممنوع نہیں ہے، کیونکہ معین مقدار میں پیداوار نہیں لیتا ہوں جو کہ ممنوع صورت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Mujahid said to Tawus: Come along with me to Ibn Rafi bin Khadij in order to listen from him the hadith transmitted on the authority of his father (pertaining to the renting of land) from Allah's Apostle (ﷺ) . He (Tawus) scolded him and said: By Allah, it I were to know that Allah's Messenger (ﷺ) had forbidden it, I would have never done it. But it has been narrated to me by one who has better knowledge of it amongst them (and he meant Ibn 'Abbas) that Allah's Messenger (ﷺ) said: It is better if a person lends, his land to his brother (for cultivation) than that he gets recognised rent on it.