Muslim:
The Book of the Rules of Inheritance
(Chapter: Whoever Leaves Behind Wealth, It Is For His Heirs)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1619.
یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کسی (ایسے) شخص کی میت لائی جاتی جس پر قرض ہوتا تو آپﷺ پوچھتے: ’’کیا اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟‘‘ اگر بتایا جاتا کہ اس نے قرض چکانے کے بقدر مال چھوڑا ہے تو آپﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیتے ورنہ فرماتے: ’’اپنے ساتھی کی نماز پڑھو۔‘‘ جب اللہ نے آپﷺ پر فتوحات کے دروازے کھولے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں مومنوں کے، خود ان کی اپنی نسبت بھی زیادہ قریب ہوں، توجو شخص فوت ہوجائے اور اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے اور جو مال چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کا ہے۔‘‘
فرائض فریضہ کی جمع ہے۔ فرض لغت میں مقدار ، اندازے اور مقرر کرنے کے معانی میں آتا ہے۔ الفرائض (ال کی تخصیص کے ساتھ ) سے مراد ورثے کے وہ حصے ہیں جن کی مقدار اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں مقرر فرمائی ہے۔ اللہ تعالی نے وراثت کی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید میں ورثے کی تقسیم کے احکامات کو بالتفصیل بیان کیا ہے، نماز جیسے امور میں بھی اصولی ہدایات دی گئی ہیں اور تفصیلات رسول الله ﷺکے عمل اور قول کے ذریعے سے واضح ہوتی ہیں ۔ اسلام کا نظام میراث ایک مکمل نظام ہے جس کا مقابلہ کیا اور دین یا معاشرے کا کوئی نظام میراث نہیں کر سکتا۔ یہ انتہائی دانائی مبنی نظام ہے، اقتصادی نمو میں مددگار ہے۔ خاندانوں میں جن افرادکو مالی ذ مہ داریوں کا امین بنایا گیا ہے، ان کے فرائض سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ تقسیم دولت کو یقینی بنانا ہے اور انصاف اور عدل کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
اسلام نےنسبی اور ازدواجی تعلق کوورثےکی تقسیم کی بنیاد بنایا ہے۔ عورتوں کا حصہ ان کی ذمہ داری کے تناسب سے مقرر کیا ہے۔ عمر میں کمی بیشی کسی وارث کو اس کے حصے سے محروم نہیں کرتی۔ نہ کسی کے حصے میں کمی یا اضافے کا سبب ہے، جب غلامی قانونی طور پر جائز تھی تو غلامی سے آزادی عطا کرنے کے تعلق کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے لیکن نسب اور ازدواجی تعلق کی قیمت پرنہیں۔
یراث سے محروی کے نمایاں ترین اسباب دہ ہیں(1)قاتل چاہے کتنا قریبی رشتہ کیوں نہ رکھتا ہو مقتول کے ورثے سے محروم ہو گا۔ یہ اصول انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے ناگزیر ہے۔(2) دین میں فرق ۔ مسلمان غیر مسلم کا وارث ہوسکتا ہے نہ غیرمسلم
مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ کے ساتھ ایمان اور بندگی کا رشتہ موجودنہیں تونسبی اور ازدواجی قرابت غیر متعلق ہو جاتی ہے۔ اس کے علا وہ غلامی محرومی کا ایک سبب ہے۔ بعض فقہاء نے حربی اور غیر حربی کے درمیان وراثت ممنوع قرار دی ہے۔ بعض نے لعان کومحرومی کے اسباب میں شمار کیا ہے۔ بعض اوقات اس کی صورت حال بھی وراثت سے محروی کا سبب بنتی ہے کہ کسی کا وارث بنا ہی اس کے لیے محرومی کا سبب بنتا ہو، مثلا ظاہری طور پر کوئی شخص کسی بیٹے کا باپ نہ ہو تو اس کا بھائی اس کا وارث بنے گا۔ اگر اس بھائی کو معلوم ہو کہ حقیقت میں اس شخص کا کوئی بیٹا بھی ہے جس کا کسی کو علم نہیں تو اس کی شہادت سے اس بیٹے کو مرنے والے کی ولد یت حاصل ہو جائے گی مگر اس صورت میں بھائی خودمحروم ہو جائے گا۔ اب نسب کے تحفظ کے لیے بیٹا ہونے کے بارے میں بھائی کی شہادت قبول کر لی جائے گی لیکن ایسے بیٹے کو وراثت میں حصہ نہیں ملے گا، البتہ شہادت دینے والےچچا کا فرض ہے کہ وہ ملنے والا سارا مال بھتیجے کو دے دے کیونکہ یہ بال اس کے لیے حلال نہیں۔
وارثوں کے رشتے بہت پیچیدہ ہوتے ہیں ۔ دوطرفہ اور ایک طرفہ رشتوں کے حوالے سے ہی عورت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
اس کے باوجود قرآن نے مقرر کردہ حصوں کے نظام کو انتہائی سادہ اور آسان رکھا ہے۔ وراثت کے حصے (الفرائض) پر مقرر کیےگئے ہیں۔
نصف (2/ 1)، ربع (4/ 1) من (8/ 1)، ثلثان ( دو تہائی 3 /2)، ثلث ( ایک تہائی ،یعنی 3/ 1 ) اور سدس (چھٹا حصہ،یعنی6/1) آدهاحقیقی بیٹی، پوتی ، سگی بہن، پدری بہن اور خاوند کو ملتا ہے جب ان کے ساتھ ایسے وارث موجود نہ ہوں جو ان کے لیے رکاوٹ بنتے ہیں۔ چوتھا حصہ قریب تر وارت کی موجودگی میں خاوند کو یا رکاوٹ بنے والے وارث کی عدم موجودگی میں بیوی بیولوں کو ملتاہے۔ دو تہائی ، رکاوٹ بنے والے وارث کی عدم موجودگی میں دو یا زیادہ حقیقی بیٹیوں یا پوتیوں یا حقیقی بہنوں یا پدری بہنوں کو ملتا ہے۔ تہائی اپنی یا بیٹے کی اولاد با دو یا دو سے زیادہ بھائیوں کو، بہنوں کی عدم موجودگی میں ماں کو، یا دو یا زیادہ مادری بھائیوں کو ملتا ہے۔ یہ کل ترکے کا ثلث ہے، کچھ وارثوں کا حصہ دینے کے بعد بقیہ کا تہائی (ثلث مابقی ) خاوند یا بیوی اور والدین کی موجودگی میں حقیقی ماں کو ملتا ہے، یا دادا اور بھائیوں کی موجودگی میں کسی اور حصہ دار کو اس صورت میں ملتا ہے جب اس کے لیے ہی حصہ دوسرے مقررہ حصے سے بہتر ہو۔ چھٹا حصہ (سدس) باپ، ماں، یا اپنی یا بیٹے کی اولاد کے ہوتے ہوئے دادے کو دادےکودادی دو دادیوں کو جب وہ اکٹھی ہوں اور بیٹی کی موجودگی میں پوتیوں کو اور حقیقی بہن کی موجودگی میں پدری بہن کویا اکیلی ہونے کی صورت میں مادری بھائی بہن کو مانتا ہے۔ یہ سب حصے قرآن نے مقرر کیے ہیں، البتہ دادیوں کے حصے کا تعین سنت سے ہوا ہے۔ یہ سب ورثاءاہل الفرائض کہلاتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے حصے فرض کر دیئے گئے ہیں۔ اہل فرائض کے حصے ادا کرنے کے بعد باقی کے وارث عصبات ہوتے ہیں ۔ ان کا بیان اگلی احادیث میں آئے گا۔
یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کسی (ایسے) شخص کی میت لائی جاتی جس پر قرض ہوتا تو آپﷺ پوچھتے: ’’کیا اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟‘‘ اگر بتایا جاتا کہ اس نے قرض چکانے کے بقدر مال چھوڑا ہے تو آپﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیتے ورنہ فرماتے: ’’اپنے ساتھی کی نماز پڑھو۔‘‘ جب اللہ نے آپﷺ پر فتوحات کے دروازے کھولے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں مومنوں کے، خود ان کی اپنی نسبت بھی زیادہ قریب ہوں، توجو شخص فوت ہوجائے اور اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے اور جو مال چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی سند سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسے مرد کی میت کو لایا جاتا، جس کے ذمہ قرض ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے: ’’کیا اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ مال چھوڑا ہے؟‘‘ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا جاتا، اس نے قرض کو ادا کرنے کا سامان چھوڑا ہے، تو آپﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیتے، وگرنہ فرماتے: ’’اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھو۔‘‘ اور جب اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو فتوحات سے نوازا، آپﷺ فرمانے لگے، ’’میں مسلمانوں کا ان کی جانوں سے زیادہ حق دار ہوں، تو جو اس حال میں فوت ہوا کہ اس کے ذمہ قرض تھا، تو اس کا ادا کرنا میرے ذمہ ہے، اور جس نے مال چھوڑا، تو وہ اس کے وارثوں کا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قرضہ کا مسئلہ بڑا سنگین ہے، انسان کو قرض کی ادائیگی میں، غفلت اور سستی سے کام نہیں لینا چاہیے، اگر کسی ضرورت یا مجبوری سے قرضہ لینے کی ضرورت پیش آئے، تو اس کی ادائیگی کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ معلوم نہیں کب موت کا پیغام آ جائے، اور اگر کوئی اپنے فقر و فاقہ سے اپنا قرضہ ادا نہ کر سکے، تو حکومت کو اس کا انتظام کرنا چاہیے، یا کم از کم اس کے لواحقین کو یہ ذمہ داری قبول کرنا چاہیے، اور مالکیہ و شافعیہ کے نزدیک، حکومت کا اس کا انتظام، زکاۃ کی مد سے بھی کر سکتی ہے، اور احناف و حنابلہ کے نزدیک، زکاۃ سے اس کی ادائیگی ممکن نہیں ہے، لیکن بقول علامہ تقی، حنابلہ اور احناف کا استدلال، لام تملیک سے ہے، یعنی ﴿لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ﴾ میں لام، تملیک کے لیے ہے، کہ ان کے قبضہ میں دیا جائے، جبکہ ﴿فِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ﴾، میں لام ہے، ہی نہیں ہے۔ اس لیے نماز میں (مقروض) کے لیے زکاۃ کا مال خرچ کے لیے تملیک کی شرط نہیں ہے۔اس کا مطلب تو یہ ہے کہ گردنوں کی آزادی اور تاوان میں آئے ہوؤں کو نکالنے میں خرچ کیا جائے، اس لیے یہاں تملیک کا سوال نہیں ہے، یہ کہا جائے، مردہ کی مال تملیک نہیں ہو سکتا، اس لیے اس کی طرف سے قرضہ زکوٰۃ کی مد سے ادا نہیں کیا جا سکتا۔ نیز جب امام (حکومت) نے زکاۃ وصول کر لی تو اس کی ملکیت میں آ چکی اب نئی ملکیت کی ضرورت نہیں۔ (تکملہ ج 2، ص 45)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported that when the body of a dead person having burden of debt upon him was brought to Allah's Messenger (ﷺ) he would ask whether he had left property enough to clear off his debt, and if the property left had been sufficient for that (purpose), he observed funeral prayer for him, otherwise he said (to his companions): You observe prayer for your companion. But when Allah opened the gateways of victory for him, he said: I am nearer to the believers than themselves, so if anyone dies leaving a debt, its payment is my responsibility, and if anyone leaves a property, it goes to his heirs.