کتاب: جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہﷺ کے اختیار کردہ طریقے
(
باب: جنگ کے لیے فوری اقدام اور دو باہم مختلف کاموں میں سے زیادہ اہم کو مقدم رکھنا
)
Muslim:
The Book of Jihad and Expeditions
(Chapter: Hastening to fight, and giving precedence to the more urgent of two tasks when a choice must be made)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1770.
حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے، جس روز آپ جنگِ احزاب سے لوٹےہم میں منادی کرائی کہ کوئی شخص بنو قریظہ کے سوا کہیں اور نمازِ ظہر ادا نہ کرے۔ کچھ لوگوں کو وقت نکل جانے کا خوف محسوس ہوا تو انہوں نے بنو قریظہ (پہنچنے) سے پہلے ہی نماز پڑھ لی، جبکہ دوسروں نے کہا: چاہے وقت ختم ہو جائے ہم وہیں نماز پڑھیں گے جہاں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ کہا: تو آپﷺ نے فریقین میں سے کسی کو بھی ملامت نہ کی۔
حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے، جس روز آپ جنگِ احزاب سے لوٹےہم میں منادی کرائی کہ کوئی شخص بنو قریظہ کے سوا کہیں اور نمازِ ظہر ادا نہ کرے۔ کچھ لوگوں کو وقت نکل جانے کا خوف محسوس ہوا تو انہوں نے بنو قریظہ (پہنچنے) سے پہلے ہی نماز پڑھ لی، جبکہ دوسروں نے کہا: چاہے وقت ختم ہو جائے ہم وہیں نماز پڑھیں گے جہاں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ کہا: تو آپﷺ نے فریقین میں سے کسی کو بھی ملامت نہ کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احزاب سے لوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں اعلان کروایا، کوئی انسان بنو قریظہ کے ہاں پہنچنے سے پہلے نماز نہ پڑھے، تو کچھ لوگ نماز کا وقت نکلنے سے ڈر گئے تو انہوں نے بنو قریظہ کے ہاں پہنچنے سے پہلے پڑھ لی اور دوسرے صحابہ نے کہا، ہم تو وہیں نماز پڑھیں گے، جہاں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنے کا حکم دیا ہے، اگرچہ وقت نکل ہی جائے، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک فریق کو بھی ملامت نہ کی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
جس نماز کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے ہاں پڑھنے کا حکم دیا تھا، اس کی تعیین میں اختلاف ہے، امام بخاری کی روایت میں عصر ہے اور یہاں مسلم میں ظہر، اس لیے بعض حضرات کا خیال ہے کہ کچھ لوگوں نے ابھی نماز ظہر پڑھنی تھی یا وہ جلد تیار ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز ظہر بنو قریظہ کے ہاں پڑھنے کا حکم دیا اور کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر پڑھی تو آپﷺ نے انہیں نماز عصر وہاں پڑھنے کا حکم دیا اور جب یہ حضرات چل دیے تو راستہ میں نماز کا وقت ہو گیا، اس لیے کچھ صحابہ نے کہا، ہمیں یہیں نماز پڑھ لینی چاہیے، بنو قریظہ کے ہاں پہنچتے پہنچتے نماز کا وقت نکل جائے گا، نماز اپنے وقت پر پڑھنے کا حکم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ تم بلا تاخیر جلدی وہاں پہنچو، کسی اور کام کی طرف توجہ نہ دو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقصد نہیں تھا کہ اگر راستہ میں نماز کا وقت ہو جائے تو نماز نہ پڑھنا، اس لیے ان لوگوں نے نماز پڑھ لی، لیکن دوسرے صحابہ نے کہا، چونکہ آپﷺ کا صحیح فرمان ہے کہ نماز بنو قریظہ جا کر پڑھنا، اس لیے ہم تو بنو قریظہ میں جا کر نماز پڑھیں گے، چاہے وقت نکل ہی جائے، اس لیے انہوں نے بنو قریظہ جا کر نماز پڑھی، آپ کو اس سے مطلع کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی فریق کو سرزنش یا ملامت نہ کی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں نیک نیتی سے اختلاف کیا جائے اور اس میں اجتہاد کی گنجائش ہو تو کوئی فریق بھی قابل مواخذہ نہیں ہے، اگرچہ رائے ایک ہی کی صحیح ہے کیونکہ دونوں نے اپنی رائے کی بنیاد پر کسی دلیل و حجت کو بنایا ہے۔ پہلے گروہ نے تیز رفتاری بھی اختیار کی اور نماز کے وقت کی پابندی بھی کی اور دوسرے گروہ نے آپ کے الفاظ ظاہر کو ملحوظ رکھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It has been narrated on the authority of'Abdullah who said: On the day he returned from the Battle of Ahzab, the Messenger of Allah (ﷺ) made for us an announcement that nobody would say his Zuhr prayer but in the quarters of Banu Quraiza. (Some) people, being afraid that the time for prayer would expire, said their prayers before reaching the street of Banu Quraiza. The others said: We will not say our prayer except where the Messenger of Allah (ﷺ) has ordered us to say it even if the time expires. (When he learned of the difference in the view of the two groups of the people, the Messenger of Allah (ﷺ) did not blame anyone from the two groups.