باب: رسول اللہ ﷺ کا فرمان ’’تمام اعمال کا مدار نیت پر ہے اور اس میں جہاد اور دیگر اعمال بھی ہیں
)
Muslim:
The Book on Government
(Chapter: The words of the prophets saws: "Deeds are but with intentions" which includes fighting and other deeds)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1907.
امام مالک نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے محمد بن ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ بن وقاص سے، انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال کا مدار نیت پر ہی ہے، اور آدمی کے لیے وہی (اجر) ہے جس کی اس نے نیت کی۔ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف تھی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے تھی تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی تھی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نےاپنی افضل ترین مخلوق (انسان)کی تخلیق اس طرح فرمائی ہےکہ مختلف اعضاءمختلف خدمات سرانجام دیتےہیں۔ ان کوسب کوسمجھنے،ان سےخدمات حاصل کرنےاورپورےجسم کی بہبوداوراس کی حفاظت کےلیے فیصلےکرنےکاکام سرکےاندررکھےہوئےدماغ کےسپردہے۔ اسلام سےپہلےعرب کےمختلف قبائل اپنےاپنےطورپرفیصلےکرتےتھے۔ رسول اللہﷺ نےایک منظم معاشرہ تشکیل دےکرسارےمعاشرےکی حفاظت ونگہداشت ، اس کےافرادکی انفرادی اوراجتماعی ضروریات کی تکمیل ،ہررکن کی فلاح وغیرہ کی ذمہ داری سربراہ کےسپردکردی۔ امیر،ان تمام امورکاذمہ دارٹھہرایاگیا۔ امارت انہی ذمہ داریوں کی ادائیگی کانام ہے۔ بعض اوقات ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کےبغیرہی کوئی شخص سربراہ کےمنصب پرقابض ہوجاتاہے،وہ حقیقی معنی میں امیرنہیں ہوتا۔ نظام امارت کےحوالےسےاہم ترین بات یہ ہےکہ امیرایساہوکہ لوگوں کی بڑی اکثریت اس کی اطاعت کرنےپرآمادہ ہو،بلکہ وہ ایسےلوگوں میں سےہوکہ عامۃ الناس ان کی اطاعت کےعادی ہوں۔ قرآن یک روسےمومنوں کی امارت مومنوں کےمشورےپرمنحصرہے(وَأَمْرُهُمْ شُورَى)’’اوران کاکام آپس میں مشورہ کرناہے۔‘‘(الشوریٰ 38:42)اورحدیث کی روسےامیران لوگوں میں سےمنتخب ہوناچاہیےجن کی اطاعت فطری ہو۔ رسول اللہﷺ نےشوریٰ کےذریعےسےاپناامیرمنتخب کرنےکی پوری ذمہ داری امت پرڈالی ،کسی کواپناجانشین مقررنہیں کیا۔ مختلف احادیث سےپتہ چلتاہےکہ آپﷺ کےبعدکیاہوگا،اس کےحوالےسےاللہ تعالیٰ نےبہت سی تفصیلات سےآپﷺ کوآگاہ کردیاتھا۔ آپ نےخبردینےکےانداز میں امت کی رہنمائی کرنےوالی قوم ،یعنی عرب قریش کےپیچھےچلتےہیں مسلمان بھی اورکافربھی،دونوں کےرہنماقریشی ہی ہیں، اس لیے ان حالات میں امام (رہنمااورحکمران)قریش ہی میں سےہوں گے۔ یہ خبربھی ہےاورہنمائی بھی۔ ’’الناس‘‘کالفظ عربی میں سیاق وسباق کےمطابق بہت وسیع(پوری انسانیت کے)معنی میں بھی استعمال ہوااورنسبتا محدودبلکہ مخصوص معنیٰ میں ان لوگوں کےلیے بھی جنہوں نےخاص تربیت حاصل کی ،ہم مقصدہوئے،بڑی ذمہ داریوں کےامین اوربڑی خوبیوں کےمالک ہوئے۔ قرآن میں یہ لفظ رسول اللہﷺ پرایمان لانےوالوں ،یعنی صحابہ کےلیے استعمال ہوا:( وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ)’’اورجب کہاگیاان سےکہ ایمان لاؤجیسےصحابہ ایمان لائے۔ ‘‘ (البقرۃ 13:2)یہ رسول اللہﷺ کےساتھی ،جاں نثار،آپ کےمشن کےامانت دار،آپ کی تربیت کانمونہ اورآدم کی اولادمیں سےبہترین امت تھے۔ مستقبل کےحوالےسےآپ کوجوکچھ دکھایاگیااس میں مثبت اورمنفی دونوں طرح واقعات تھے۔ ان کےساتھ ہی ،آپ کی تسلی کےلیے آپ کودکھایاگیاکہ ان مخصوص لوگوں میں سے جب تک دواشخاص بھی موجودہوں گےتوامارت کےنظام کابنیادی عنصر،یعنی’’سمع وطاعت‘‘کاسلسلہ محفوظ ہوگا۔ مشکلات کےباوجودحکمران انہی میں ہوں گےجن کی لوگ اطاعت کرتےہیں۔ اسی بات کوبارہ حکمرانوں کےحوالےسےبھی بیان کیاگیا۔ بعدمیں بتدریج انتظامی معاملات ،عملادوسروں کےہاتھ میں جانےشروع ہوگئے۔
خلافت راشدہ کےدوران میں ایک حکمران کےبعددوسرےکی جانشینی کاطریق کارحالات کےمطابق مختلف رہا،لیکن بنیادشوریٰ پررہی۔ کبھی اس شوریٰ میں جانےوالاامام شریک بھی ہوا۔ جس طرح ابوبکرکوشریک کیاگیااوریہ بھی ہواکہ جانےوالےنےشوریٰ میں شرکت کےبجائےساری ذمہ داری بعدوالوں پرڈال دی۔ اس کی مثال حضرت عمر کاطریقہ ہے۔ حضرت عثمان کےبعدحضرت علینےبھی اسی طریقےپرعمل کیااوریہی خودرسالت مآبﷺ کاطریقہ تھاکہ ایک امام کےبعداگلےکاانتخاب وہی لوگ باہمی مشاورت سےکریں جوموجودہوں۔
امارت کی صلاحیت کےساتھ ساتھ عدم صلاحیت کی وضاحت بھی ضروری ہے۔امام مسلم نےاس حوالےسےوہ احادیث بیان کیں جن میں یہ صراحت ہےکہ جوشخص عہدےکاطلبگارہووہی اصلااس صلاحیت سےمحرومم قرارپاتاہے۔ یہ بھی وضاحت ہےکہ یہ ذمہ داری ہے،اس کی خواہش کرناغلط ہے۔یہ ذمہ داری بغیرخواہش کےجس کےکندھےپرڈالی گئی ،اللہ کی طرف سےاس کی اعانت ہوگی اورجسےخواہش پرملی وہ تنہااس کواٹھائےگا۔ جب کسی پرذمہ داری پڑجائےاوروہ اس کاحق اداکرنےکی کوشش کرے،عدل سےکام لے،لوگوں کومشکلات سےبچائےاورانہیں اآسانیاں فراہم کرنےکی کوشش کرےتوآخرت میں بھی اس اجربہت بڑاہوگا۔
امیرچونکہ لوگوں کےاجتماعی اموال کاامین ہوتاہےاس لیے اس کی خیانت،بہت سنگین جرم ہےاوراس کےلیے سخت ترین عذاب کی وعیدہے۔ کھلی خیانت کےعلاوہ بہت سےدوسرےمعاملات بھی مخدوش ہیں۔ اس کی مثال لوگوں کی طرف سےملنےوالے’’ہدیے‘‘ہیں۔ رسول اللہﷺنےاس معاملےمیں انتہائی احتیاط کاحکم دیا۔ پھرامام مسلم نےایسی احادیث بیان کیں جن میں امیرکی اطاعت کی حدودمتعین کی گئی ہیں۔بنیادی اصول یہ ہےکہ اچھےکاموں میں اطاعت کی جائےاورگناہوں میں عدم اطاعت سےکام لیاجائےکیونکہ امیرکی اطاعت اللہ کی اطاعت کی وجہ سےاوراسی کےحکم پرہے۔ اللہ کی نافرمانی میں کسی اطاعت جائزنہیں۔
اس کےبعدامام کی ذمہ داریوں میں سےاہم ترین ذمہ داری ،یعنی مسلمانوں کےتحفظ دفاع اوراس غرض سےقتال وجہادکےحوالےسےامیرکےبنیادی اورمرکزی کردارکاتذکرہ ہے،پھرخلافت کےحوالےسےپیداہونےوالےجھگڑوں سےنپٹنےکےبارےمیں رہنمائی ہے، پھراس بات کابیان ہےکہ اگرحکمران مکمل طورپراللہ سےبغاوت نہیں کرتے،نمازقائم کرتےرہتےہوتونظام کی حفاظت کےعظیم مقصدکےلیےان کےظلم پربھی صبرکرنادانائی ہے، اس کےبعدملت کےاتحاد کےتحفظ کےبارےمیں رہنمائی ہے،اس طرح جوکوئی انتشارکاسبب بنےاس سےچھٹکاراحاصل کرناضروری ہے،پھرحکمرانوں کی رہنمائی کےلیے مختلف ابواب ہیں۔ اچھےاوربرےحکمرانوں کی صفات کیاہیں؟ اہم مراحل میں لوگوں کوساتھ رکھنےکےلیے ان کی مشاورت اورخصوصی مشن کےلیے ان کی بیعت کےحوالےسےرہنمائی مہیاکی گئی ہے۔ یہ بھی وضاحت کی گئی کہ رسول اللہﷺ نےکن مراحل میں کن امورپربیعت کی ۔ اس کتاب کےآخری آدھےحصےمیں مختلف ابواب کےتحت امیرکی اہم ترین ذمہ داری مسلمانوں کےتحفظ اوردفاع کی اہمیت اوراس کی کماحقہ تیاری کےحوالےسےاحادیث بیان کی گئی ہیں۔ کتاب الامارہ انتہائی جامع کتابوں میں سےایک ہے۔
امام مالک نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے محمد بن ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ بن وقاص سے، انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال کا مدار نیت پر ہی ہے، اور آدمی کے لیے وہی (اجر) ہے جس کی اس نے نیت کی۔ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف تھی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے تھی تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی تھی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب انسانی اعمال کا دارومدار بس نیت پر ہے اور آدمی کو اس کی نیت کے مطابق ہی پھل ملتا ہے، تو جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی (اللہ اور اس کی رضا و خوشنودی اور اطاعت کے سوا اس کی ہجرت کا کوئی اور محرک نہ تھا) تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوئی اور اس کو اس کا اجر و ثواب حاصل ہو گا) اور جس نے ہجرت کسی دنیوی مقصد کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی خاطر کی تو (اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے نہ ہوئی بلکہ) اسی غرض کے لیے ہوئی جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
یہ حدیث اسلام میں بنیادی حیثیت کی حامل ہے، اس لیے بعض ائمہ نے اس کو نصف الاسلام (آدھا اسلام) بعض نے ثلث الاسلام (تہائی اسلام) اور بعض نے ربع الاسلام (چوتھائی اسلام) قرار دیا ہے اور نیت کا معنی ہے، جذبہ محرکہ یا داعیہ عمل ہے، اس لیے اس حدیث کا اصل مقصد اور منشاء مسلمانوں پر اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ تمام اعمال صالحہ کے صلاح و فساد اور مقبولیت مردودیت کا مدار نیت پر ہے، یعنی وہی عمل صالح ہو گا اور اس کی اللہ کے ہاں قدروقیمت ہو گی، جس کا داعیہ اور محرک اخلاص اور للہیت ہو گا، بڑے سے بڑا عمل بھی اگر اخلاص اور للہیت سے خالی ہو گا، کسی اور جذبہ سے کیا گیا ہو گا، وہ صالح اور مقبول نہ ہو گا، بلکہ کسی فاسد نیت سے کیا ہو گا تو وہ جہنم میں جائے گا، جیسا کہ اوپر شہید، عالم اور سخی کے بارے میں گزر چکا ہے۔ فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَ رَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَ رَسُولِهِ میں شرط اور جواب شرط یکساں ہے۔ اور عربی اسلوب میں یہ انداز تاکید و اہتمام پر دلالت کرتا ہے اور مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے، جیسا کہ ابو النجم کا قول ہے، انا ابو النجم و شعری شعری میں ابو نجم ہوں کہ میرا شعر ہی شعر کہلانے کا حق دار ہے انت انت، تو ہی دوست ہے کوئی دوسرا دوستی اور رفاقت میں تیرا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید میں ﴿وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّـهِ مَتَابًا﴾(سورۃ الفرقان: 71)(يا مفهوم هذا ۔۔۔ من كانت هجرة الی رسوله نيتا وقصدا فهجرته الی ورسوله اجرا و ثوابا) اس حدیث میں خصوصی طور پر نکاح کا تذکرہ ہے کیونکہ اس کا پس منظر یہی ہے جیسا کہ طبرانی میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں كان فينا رجل خطب امرأة يقال لها : أم قيس ، فأبت أن تتزوجه حتى يهاجر ، فهاجر فتزوجها ، فكنا نسميه مهاجر أم قيس اور زبیر بن بکار نے اخبار المدینہ میں روایت بیان کی ہے لما قدم رسول الله صلى الله عيله وسلم المدينة وعك فيها أصحابه وقدم رجل فتزوج امرأة مهاجرة، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر فقال: " يا أيها الناس إنما الأعمال بالنية ۔ثلاثا۔ إنما الأعمال بالنيات وإنما لامرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله، فهجرته إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه لیکن یہ روایت مرسل ہے اور ضعیف ہے کیونکہ موسیٰ بن محمد بن ابراهيم بن الحارث لا يحتج به(تکملہ ج 3 ص 448)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It has been narrated on the authority of Umar bin al-Khattab that the Messenger of Allah (ﷺ) said: (The value of) an action depends on the intention behind it. A man will be rewarded only for what he intended. The emigration of one who emigrates for the sake of Allah and His Messenger (ﷺ) is for the sake of Allah and His Messenger (ﷺ) ; and the emigration of one who emigrates for gaining a worldly advantage or for marrying a woman is for what he has emigrated.