باب: مہمان کی عزت افزائی اور اسے اپنی ذات پر ترجیح دینا
)
Muslim:
The Book of Drinks
(Chapter: Honoring guests and the virtue of showing preference to one's guest)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2054.
جریر بن عبدالحمید نےفضیل بن غزوان سے، انھوں نے ابوحازم اشجعی سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے (کھانے پینے کی) بڑی تکلیف ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی کسی زوجہ مطہرہ کے پاس کہلا بھیجا، وہ بولیں کہ قسم اس کی جس نے آپ ﷺ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے کہ میرے پاس تو پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے دوسری زوجہ کے پاس بھیجا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کہا، یہاں تک کہ سب ازواج مطہرات رضی اللی تعالیٰ عنھن سے یہی جواب آیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’آج کی رات کون اس کی مہمانی کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے۔‘‘ تب ایک انصاری اٹھا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں کرتا ہوں۔ پھر وہ اس کو اپنے ٹھکانے پر لے گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ وہ بولی کہ کچھ نہیں البتہ میرے بچوں کا کھانا ہے۔ انصاری نے کہا کہ بچوں سے کچھ بہانہ کر دے اور جب ہمارا مہمان اندر آئے اور دیکھنا جب ہم کھانے لگیں تو چراغ بجھا دینا۔ پس جب وہ کھانے لگا تو وہ اٹھی اور چراغ بجھا دیا (راوی) کہتا ہے وہ بیٹھے اور مہمان کھاتا رہا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور میاں بیوی بھوکے بیٹھے رہے اور مہمان نے کھانا کھایا۔ جب صبح ہوئی تو وہ انصاری رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے تعجب کیا جو تم نے رات کو اپنے مہمان کے ساتھ کیا (یعنی خوش ہوا)۔
کتاب الاشربہ اپنےمعانی کےاعتبارسےایک وسیع المطالب کتاب ہے۔ مشروبات میں حلال وحرام مشروبات کی تفصیل،شراب کےنقصانات ،وہ حالات جن میں شراب کوحتمی طورپرحرام قراردیاگیا،صحابہ کاجذبہ اطاعت مختلف چیزوں سےبننےوالی شرابوں کی مشرکہ صفت اورمضرت،اس سےمکمل اجتناب کےلیے مشروب سازی اوربرتنوں تک کےحوالےسےاحتیاطی احکام،حلال مشروبات کےحوالےسےصحت کےلیے ضروری احتیاطی تدابیر،پینےاور کھانےدونوں کےمعاشرتی اورروحانی آداب،حلت وحرمت کےحوالےسےاوہام پرمبنی تصورات،شخصی ناپسندیدگی اورحرمت،کھانےپینےمیں موسات اوربرکت،اس کتاب میں ان تمام موضوعات کےحوالےسےرہنمائی کےلیے ارشادات نبویہ پیش کیےگئےہیں۔
کتاب کاآغازاس افسوسناک واقعےسےکیاگیاہےجوحضرت حمزہکی شراب نوشی کی بناپرحضرت علیاورخود رسالت مآبﷺکوپیش آیا۔ حضرت حمزہ شراب نوشی کی ایک مجلس میں شریک ہوئے،گانےوالی نے شراب کےنتیجےمیں پیداہونےوالی خودفریبی اوراپنی عظمت وسخاوت کےانتہائی مبالغہ آمیزاحساس کومزیداجاگرکیا اورباہربیٹھیں حضرت علیکی دواونٹنیوں کے،جوان کی کل متاع تھیں،کباب کھلانےکی تان اڑائی۔شراب اپنےپینےوالوں کےاحساس عظمت کواتنابڑھادیتی ہےکہ عقل ودانش کی جملہ قیودٹوٹ جاتی ہیں۔ حضرت حمزہ نےگانےوالی کےالفاظ کےعین مطابق اپنی تلواراٹھائی اوران اونٹنیوں کی کوہانیں کاٹیں، پیٹ چاک کیے،کلیجےنکالے اورکباب بنانےوالوں کےحوالےکردیے۔ حضرت علیشدیدصدمےکےعالم میں رسول اللہﷺکےپاس آئے، ان کی بات سن کرآپ ﷺچل کرحمزہکےپاس توپتہ چلاکہ حضرت حمزہشراب کےنشےمیں پہچان اورتمیزتک کھوچکےہیں۔ شراب کی حرمت کےتدریجی مراحل کاآغازہوچکاتھا۔ یہ واقعہ پورےمدینہ والوں کی آنکھیں کھول دینےاورشراب کےشدیدنقصان کوپوری طرح واضح کرنےکےلیے کافی تھا۔ اس کےنتیجےمیں شراب کی حتمی حرمت کااعلان کردیاگیا۔ یہ ایمان لانےوالوں کےلیے ایک سخت امتحان تھا۔ یہ رسول اللہﷺکی بےمثال تربیت اوراس کےنتیجےمیں حاصل ہونےوالی ایمان کی مضبوطی تھی کہ شراب کی حرمت کےاعلان کےساتھ ہی شراب چھوڑدی گئی،مٹکےتوڑدیےگئےاورشراب کوگلیوں میں بہادیاگیا۔ یہ اہل ایمان کی عظیم الشان کامیابی تھی۔
اللہ کی رہنمائی کابنیادی مقصدیہ ہےکہ انسان اپنےخالق اورحقیقی مالک کوپہچانے،اپنےبرےبھلےمیں تمیزکرے،اس کےازلی دشمن شیطان نےاس کوتباہ کرنےکےلیےجوفریب کےجال پھیلارکھےہیں ان کےدھوکےمیں نہ آئے، اپنی حقیقی کامیابی کےمقصدسےغافل نہ ہو۔ شراب اس سےپہچان اورتمیزچھین کراسےاپنےسب سےبڑےدشمن کا شکاربننےکےلیے تیارکردیتی ہے۔ یہ شیطان کاسب سےخوفناک پھنداہےجس کےذریعےسےانسان کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے،اس لیے شراب چاہےجس چیزکی بنی ہوئی ہواورجس نام سےہواس کوپوری سختی سےحرام کردیاگیااور اس سےاجتناب کویقینی بنانےکےلیے ان ذرائع کوبھی مسدودکیاگیاجوانسان کواس تک لےجاسکتےہیں۔
اس زمانےمیں حجازکےعلاقےمیں شراب’’نخلہ‘‘(کھجورکےدرخت)اور’’کرمہ‘‘(انگورکی بیل)کےپھلوں سے بنتی تھی۔ شراب بنانےکےلیے نیم پختہ کھجوراورتازہ کھجورکویانیم پختہ کھجوراورخشک کھجورکویاکھجوراورکشمش کوملاکرپانی میں اس کارس نکالاجاتاتھا، پھراسےرکھاجاتاحتی کہ اس میں تخمیرکاعمل ہوتااوروہ شراب بن جاتی۔ مختلف قسم کےکچے،پکےتازہ اورخشک پھلوں کارس ملانےسےاس میں تندی آجاتی اورجلدتخمیرکاعمل شروع ہوجاتا۔ یمن میں شہدکےشربت سےشراب بنائی جاتی تھی جسے’’بتع‘‘کہتےتھے۔ جوسےبھی شراب بنائی جاتی تھی،اسے’’مزر‘‘کہتے تھے۔ رسول اللہﷺنےاس سےقطع نظرکہ وہ کسی چیزسےبنی ہوئی ہیں،تمام شرابوں کوحرام قراردیابلکہ صریح الفاظ میں ہرقسم کی نشہ آورچیزکی حرمت کااعلان فرمایادیا۔ قاعدہ کلیہ یہ بیان فرمایا(كُلَّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلَّ مُسْكِرٍحَرَامٌ)’’ہرنشہ آورچیزخمر(شراب)ہےاورہرنشہ آورچیزحرام ہے۔‘‘(حدیث:5218)
کھجورکوپانی میں ملاکراس کابنایاہواشربت’’نبیذ‘‘عربوں کوبہت مرغوب تھالیکن اس شربت پرتھوڑاساوقت گزرجاتا توعمل تخمیرسےیہ نشہ آوربن جاتا۔ اگراسےمسامداربرتنوں میں بنایاجاتاتواستعمال کےبعد،دھونےکےباوجودان برتنوں کےمساموں میں اس کےاجزاءرہ جاتےاوران کاخمیربن جاتا۔ ان برتنوں میں دوبارہ رس ڈالنےکےبعدتخمیر کاعمل عمل فوراشروع ہوجاتااورنبیذنشہ آورہونےلگتی۔ رسول اللہﷺنےاللہ نےحکم سےاپنی امت کواس غلاظت سےمکمل طورپرمحفوظ رکھنےکےلیے یہ حکم دیاکہ ایک ہی قسم کےکچےاورپکےبرتنوں کااستعمال ممنوع قراردیاجن میں شراب بنائی جاتی تھی۔ اگرشراب نہ بنائی گئی ہوتوبھی مسامداربرتنوں میں مشروب بنانےکی ممانعت فرمادی۔ ان برتنوں میں سوکھےکدوکوکھوکھلاکرکےبنائےہوئےبرتن،لکڑی کےبرتن،روغن قارملےہوئےبرتن اورمٹی کےگھڑےوغیرہ شامل تھے۔ مشکیزوں میں نبیذبنانےکی اجازت دی کیونکہ ان میں تخمیرکاعمل جلدشروع نہیں ہوتا۔ برتنوں کےحوالےسےیہ پابندی کچھ عرصہ برقراررہی،جب یقین ہوگیاکہ شراب بنانےوالےپرانے برتن ختم ہوگئےیاان کےاندرسے’’خمیر‘‘کےاجزاءمکمل طورپرزائل ہوگئےتوان کےعام استعمال کی اجازت مرحمت فرمادی۔ یہ تاکیدی حکم باقی رہاکہ کسی حلال مشروب(نبیذ،پھلوں کےرس وغیرہ)کواسی وقت تک استعمال کرناجائزہےجب تک ان میں تخمیرکاعمل شروع ہونےکاامکان ہی پیدانہ ہواہو۔ اورمسامداربرتنوں ،مثلا:روغن قارملےہوئےبرتنوں میں نبیذبنانےکی پابندی بھی برقراررہی۔ (حدیث:5210)
اسلام نےمضرصحت نشہ آورمشروبات کی ممانعت کےساتھ صحت بخش مشروبات خصوصادودھ پینےکی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ صحت کےحوالےسےیہ ہدایت بھی دی کہ کھانےپینےکی تمام اشیاءکی ہرصورت میں ڈھک کررکھاجائے۔ کھانےپینےکی اشیاءاللہ تعالیٰ کی قدرت،رحمت اورلطف وکرم کاخاص کرشمہ ہیں۔ اللہ نےانہیں اس طرح پیدافرمایاہےکہ یہ انسان کےجسم کوصحت اورتوانائی بخشتی ہیں اوراس کےساتھ مزےسےبھرپورہیں۔ یہ انسان کےکام ودہن کولذت بخشتی ہیں اورپھرکےحکم سےاس کےجسم کاحصہ بن جاتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نےاپنی امت کواس بات کی تعلیم دی ہےکہ اگریہ اللہ کےحکم کےمطابق،انہیں اس کی نعمت سمجھتےہوئے،پاکیزگی کااہتمام کرتےہوئےاورا س کانام لےکراستعمال کریں تواللہ تعالیٰ ان میں برکت شامل کردیتاہے۔ اس عظیم روحانی پہلوپرصحیح مسلم کےکتاب الاشربۃ میں تفصیل سےروشنی ڈالی گئی ہے۔ بےبرکتی کےاسباب واضح کیےگئےہیں۔ پاکیزگی کےحوالےسےدایاں ہاتھ استعمال کرنے،برتن میں سانس نہ لینے،برتنوں کوگندانہ کرنے،اطمینان اورآرام سےبیٹھ کرکھانےپینےاورپانی وغیرہ پیتےہوئےبارباربرتن سےمنہ ہٹاکرسانس لینےاورکانام لےکرکھانےپینےکی تعلیم دی گئی ہے۔ ا س بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہےکہ کھانےکی ادنیٰ ترین مقداربھی ضائع نہیں کرنی چاہیے،کھانےکابرتن اچھی طرح صاف کرناچاہیےاورانگلیاں چاٹ لینی چاہئیں ،اس میں برکت ہے۔ مغرب زدہ متکبرین انگلیاں چاٹنےکوبراسمجھتےرہے۔ اب جدیدسائنس نےہی،جسےیہ لوگ علم کی انتہاسمجھتےہیں،ان کی سوچ کی غلطی واضح کرتےہوئےیہ شہادت پیش کردی ہےکہ انگلیوں سےکھاناکھاتےہوئےان کی سطح پرایسامادہ پیداہوجاتاہےجوکھانےکےاندرمضرصحت جراثیم کوختم کردیتاہے۔ انگلیاں چاٹ لیناانتہائی صحت بخش طریقہ ہے۔ اس بات کی بھی تعلیم دی گئی کہ صاف دھلےہوئےدائیں ہاتھ سےکھاناچاہیے۔ اوراپنےآگےسےکھاناچاہیے۔ انگوٹھےکےساتھ دوانگلیاں استعمال کرنی چاہئیں ۔کھجوروغیرہ کھاکراس کی گٹھلیاں دوبارہ اسی برتن میں نہیں ڈالنی چاہئیں کسی کھانےمیں عیب جوئی نہیں کرنی چاہیےاورحلال چیزوں میں بھی نفیس ترین اوربوسےپاک اشیاءکوترجیح دینی چاہیے۔
اس سےآگےبڑھ کریہ واضح کیاگیاہےکہ مذکورہ بالاتمام ہدایات کی پابندی کےساتھ اگراللہ کی رضاکےلیے کھانےمیں مواسات،زیادہ سےزیادہ لوگوں کوشریک کرنے،خودپردوسروں کوترجیح دینےکاارادہ اوراس پرعمل کیاجائےتوکھانےمیں ایسی برکت پیداہوجاتی ہےکہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ رسول اللہﷺتومواسات سےبڑھ کرامت کےتمام افرادکےلیے مجسم محبت خیرخواہی اورلطف وکرم کاسرچشمہ تھے۔ آپ کی برکت سےدوچارلوگوں کاکھانایاپیناتوسیکڑوں بلکہ ہزاروں افرادکوسیرکردیتاتھا،پھربھی بچارہتاتھا،عام مسلمان بھی جب دوسرےبھائیوں کواپنےساتھ شریک کریں توایک آدمی کاکھاناکم ازکم دوکواوردوآدمیوں کاکھاناچارکوبہ آسانی کفایت کرےگا۔ مواسات کاجذبہ اوراخلاص جس قدربڑھتاجائےگا، برکت میں اسی قدراضافہ ہوجائےگا۔
حضرت ابوبکرصدیقاس بات پرسخت پریشان ہوئےاورانہیں غصہ آیاکہ ان کی ناگریزغیرحاضری کےدوران میں ان کےمہمان بہت دیرتک بھوکےرہے۔ اس میں اگرچہ مہمانوں کےاپنےاصرارہی کادخل تھالیکن حضرت ابوبکرکی پریشانی اورغصہ اللہ کی رضاکےلیےتھا۔ اپنےمہمانوں کی شدیدخیرخواہی کاجذبہ بھی اللہ کی رضاکےلیے تھا۔ یہ صرف اورصرف اللہ کےلیے خیرخواہی اوراللہ کےلیے غصےکامظاہرہ تھا۔ اس بناپراللہ نےان کےتھوڑےسےکھانےمیں اتنی برکت ڈال دی کہ مہمانوں اورگھروالوں کےعلاوہ وہ اللہ کی راہ میں جہادکےلیے جانےوالوں کےبھی کام آیا۔
جریر بن عبدالحمید نےفضیل بن غزوان سے، انھوں نے ابوحازم اشجعی سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے (کھانے پینے کی) بڑی تکلیف ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی کسی زوجہ مطہرہ کے پاس کہلا بھیجا، وہ بولیں کہ قسم اس کی جس نے آپ ﷺ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے کہ میرے پاس تو پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے دوسری زوجہ کے پاس بھیجا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کہا، یہاں تک کہ سب ازواج مطہرات رضی اللی تعالیٰ عنھن سے یہی جواب آیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’آج کی رات کون اس کی مہمانی کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے۔‘‘ تب ایک انصاری اٹھا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں کرتا ہوں۔ پھر وہ اس کو اپنے ٹھکانے پر لے گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ وہ بولی کہ کچھ نہیں البتہ میرے بچوں کا کھانا ہے۔ انصاری نے کہا کہ بچوں سے کچھ بہانہ کر دے اور جب ہمارا مہمان اندر آئے اور دیکھنا جب ہم کھانے لگیں تو چراغ بجھا دینا۔ پس جب وہ کھانے لگا تو وہ اٹھی اور چراغ بجھا دیا (راوی) کہتا ہے وہ بیٹھے اور مہمان کھاتا رہا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور میاں بیوی بھوکے بیٹھے رہے اور مہمان نے کھانا کھایا۔ جب صبح ہوئی تو وہ انصاری رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے تعجب کیا جو تم نے رات کو اپنے مہمان کے ساتھ کیا (یعنی خوش ہوا)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا: میں بھوکا ہوں تو آپ نے اپنی کسی بیوی کے پاس پیغام بھیجا، اس نے کہا: اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں، پھر آپ نے دوسری کی طرف پیغام بھیجا تو اس نے بھی یہ بات کہی، حتی کہ ان سب نے یہی جواب دیا، نہیں، اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، میرے پاس صرف پانی ہے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’جو آج رات اس کی مہمان نوازی کرے گا، اللہ اس پر رحم فرمائے گا۔‘‘ تو ایک انصاری آدمی کھڑا ہوا اور کہا: میں، اے اللہ کے رسول! وہ اس کو لے کر اپنے گھر چلا گیا اور اپنی بیوی سے کہا: کیا تیرے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا: نہیں، سوائے میرے بچوں کی خوراک کے، اس نے کہا: انہیں کسی چیز سے بہلا دے اور جب ہمارا مہمان اندر آئے تو چراغ گل کر دینا اور اسے یوں دکھانا کہ ہم کھا رہے ہیں تو جب وہ کھانے کے لیے بڑھے تو اٹھ کر چراغ بجھا دینا، سو وہ سب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھا لیا، جب صبح ہوئی، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’آج رات تم نے اپنے مہمان کے ساتھ جو سلوک کیا، اللہ تعالیٰ اس پر بہت خوش ہوا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ضرورت مند اور محتاج کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی سے پیش آنا چاہیے، اگر انسان خود یہ کام نہ کر سکتا ہو تو پھر دوسروں کو اس کی ترغیب دے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنے گھروں سے اس کو کھانا مہیا کرنے کی کوشش فرمائی، یہ نہ ہو سکا تو پھر دوسروں کو ترغیب دی، پھر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ جو ایک مالدار صحابی تھے، وہ اس کو ساتھ لے گئے، لیکن اتفاقا اس رات ان کے گھر میں مہمان کے لیے وافر کھانا نہ تھا، اس لیے انہوں نے ایک تدبیر کے ذریعہ اسے کھانا کھلایا اور اسے یہ محسوس نہ ہونے دیا کہ ان کے پاس کھانا کم ہے، اس سے سب سیر نہیں ہو سکتے، تاکہ وہ کھانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported that a person came to Allah's Messenger (ﷺ) and said: I am hard pressed by hunger. He sent (message) to one of his wives (to procure food for him) but she said: By Him Who has sent you with Truth, thrre is nothing with me (to serve him) but only water. He (the Holy Prophet) then sent the (same) message to another, and she gave the same reply, until all of them gave the same reply: By Him Who has sent thee with the Truth, there is nothing with me but only water, whereupon he (the Holy Prophet) said: Allah would show mercy to him who will entertain this guest tonight. A person from the Ansar stood up and said: Messenger of Allah, I am ready to entertain. He took him to his house and said to his wife: Is there anything with you (to serve the guest)? She said: No, but only a subsistence for our children. He said: Distract their attention with something, and when the guest enters extinguish the lamp and give him the impression that we are eating. So they sat down and the guest had his meal. When it was morning he went to Allah's Apostle (ﷺ) who said: Allah was well pleased with what you both did for your guest this night.