باب: جاندار کی تصویر بنا نے اور جوفرش پر روندی نہ جا رہی ہو ں ان تصویروں کو استعمال کرنے کی ممانعت نیز یہ کہ جس گھر میں تصویر یا کتاہوا ہو اس میں ملا ئیکہ علیہ السلام دا خل نہیں ہو تے
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: The Prohibition Of Making Images Of Living Beings, And The Prohibition Of Using Images That Are Not Subjected To Disrespect In Furnishings And The Like; The Angels (Peace Be Upon Them) Do Not Enter A House In Which There Is An Image Or A Dog)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2110.
امام مسلم نے کہا: میں نے نصر بن علی جہضمی کے ساتھ عبدالاعلی بن عبدالاعلیٰ سے حدیث پڑھی کہ ہمیں یحییٰ بن ابی اسحٰق نے (حضرت حسن بصری کے بھا ئی ) سعید بن ابو حسن سے روایت بیان کی، کہا: ایک شخص حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس آیا اس نے کہا: میں یہ (جانداروں کی) تصویریں بناتا ہوں، آپ مجھے ان کے متعلق فتویٰ دیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میرے قریب آؤ۔ وہ قریب ہوا انھوں نے پھر فرمایا میرے قریب آؤ وہ (مزید قریب آیا آپ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: میں تم کو وہ بات بتاتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے: ’’ہر تصویر بنانے والا جہنم میں ہو گا اور اس کی بنائی ہوئی تصویر کے بدلے میں اللہ تعا لیٰ ایک جاندار بنائے گا وہ اسے جہنم میں عذاب دے گا۔‘‘ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا: اگر تم نے ضرور (یہی کا م) کرنا ہے تو درختوں کی اور جن چیزوں میں جان نہیں ان کی تصویر بناؤ۔ نصر بن علی نے (جب میں نے ان کے سامنے یہ حدیث پڑھی) اس کا اقرار کیا (کہ انھوں نے عبد الاعلیٰ بن عبدالاعلیٰ سے اسی طرح روایت کی۔)
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
امام مسلم نے کہا: میں نے نصر بن علی جہضمی کے ساتھ عبدالاعلی بن عبدالاعلیٰ سے حدیث پڑھی کہ ہمیں یحییٰ بن ابی اسحٰق نے (حضرت حسن بصری کے بھا ئی ) سعید بن ابو حسن سے روایت بیان کی، کہا: ایک شخص حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس آیا اس نے کہا: میں یہ (جانداروں کی) تصویریں بناتا ہوں، آپ مجھے ان کے متعلق فتویٰ دیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میرے قریب آؤ۔ وہ قریب ہوا انھوں نے پھر فرمایا میرے قریب آؤ وہ (مزید قریب آیا آپ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: میں تم کو وہ بات بتاتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے: ’’ہر تصویر بنانے والا جہنم میں ہو گا اور اس کی بنائی ہوئی تصویر کے بدلے میں اللہ تعا لیٰ ایک جاندار بنائے گا وہ اسے جہنم میں عذاب دے گا۔‘‘ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا: اگر تم نے ضرور (یہی کا م) کرنا ہے تو درختوں کی اور جن چیزوں میں جان نہیں ان کی تصویر بناؤ۔ نصر بن علی نے (جب میں نے ان کے سامنے یہ حدیث پڑھی) اس کا اقرار کیا (کہ انھوں نے عبد الاعلیٰ بن عبدالاعلیٰ سے اسی طرح روایت کی۔)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعید بن ابی الحسن بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا، میں ایسا آدمی ہوں کہ میں یہ تصویریں بناتا ہوں تو آپ مجھے ان کے بارے میں فتویٰ دیں تو انہوں نے اس سے کہا، میرے قریب ہو جا تو وہ ان کے قریب ہو گیا، پھر انہوں نے کہا، میرے قریب ہو جا تو وہ اور قریب ہو گیا، حتی کہ انہوں نے اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور کہا، میں تمہیں وہ بات بتاتا ہوں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ’’ہر تصویر بنانے والا دوزخ میں ہو گا اور اللہ اسے ہر تصویر کے عوض میں، جو اس نے بنائی ہو گی، ایک جان دے گا، جو اس کو جہنم میں دکھ پہنچائے گی۔‘‘ اور فرمایا: اگر تجھے ضرور ہی تصویر بنانا ہے تو درخت کی تصویر اور بے جان چیز کی تصویر بنا، امام مسلم نے یہ حدیث اپنے استاد نصر بن علی جہضمی کو سنائی تو انہوں نے اس کا اقرار کیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، شجر، حجر، دریا، پہاڑ، عمارات اور ہر اس چیز کی تصویر بنانا جائز ہے، جس میں روح نہیں ہے، کیونکہ ایسی چیزیں انسان اپنے لیے بناتا ہے، یا کاشت کرتا ہے، جن میں روح نہیں ہے اور یہ بے شمار ہیں، اس لیے اگر کسی کو فوٹو گرافی ہی کا شوق ہے، یا یہی اس کا پیشہ ہے تو وہ ان چیزوں کی تصاویر بنا سکتا ہے، یا اتار سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
(Muslim said): I read this before Nasr bin 'Ali at-Jahdami and he read it before other narrators, the last one being Ibn Sa'id b Abl at Hasan that a person came to Ibn 'Abbas and said: I am the person who paints pictures; give me a religious verdict about them. He (Ibn 'Abbas) said to him: Come near me (still further). He came near him so much so that he placed his hand upon his head and said: I am going to narrate to you what I heard from Allah's Messenger (ﷺ) . I heard him say: All the painters who make pictures would be in the fire of Hell. The soul will be breathed in every picture prepared by him and it shall punish him in the Hell, and he (Ibn 'Abbas) said: If you have to do it at all, then paint the pictures of trees and lifeless things; and Nasr bin 'Ali confirmed it.