باب: (دروازے کا) پردہ اٹھا نے یا اس طرح کی کسی اور علامت کو اجازت کے مترادف قرار دینا جا ئز ہے
)
Muslim:
The Book of Greetings
(Chapter: It Is Permissible To Give Permission To Enter By Raising The Curtain Or Giving Some Other Sign)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2169.
عبدالوحد بن زیاد نے کہا: ہمیں حسن بن عبید اللہ نے حدیث بیان کی۔ کہا: ہمیں ابراہیم بن سوید نے حدیث سنائی کہا: میں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے سنا، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’تمھا رے لیے میرے پاس آنے کی یہی اجازت ہے کہ حجاب اٹھا دیا جا ئے اور تم میرے راز کی بات سن لو، (یہ اجازت اس وقت تک ہے) حتی کہ میں تمھیں روک دوں‘‘
اسلامی سلامتی کادین ہے۔ صرف انسان کےلیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کی سلامتی سکھاتاہے۔ ہرمسلمان کوسکھایاگیاہےکہ دنیاکاہروہ انسان جواللہ کاباغی نہیں اوردوسرےانسان کی سلامتی کاقائل ہےوہ صرف اسےسلامتی کایقین ہی نہ دلائےبلکہ سلامتی کی دعابھی دے۔ پہلافقرہ جوکوئی مسلمان کوکہتاہےوہ السلام علیکم ہے۔ وہ صرف اپنےمخاطب کوسلامتی کاپیغام اورسلامتی کی دعانہیں دیتابلکہ اس کےتمام ساتھیوں کوبھی اس میں شامل کرتاہے۔ قرآن مجیدنےمسلمانوں کےدرمیان سلامتی کی خواہش کےاظہاراوردعاکولازمی قراردیاہے۔ اسلام کونہ ماننےوالوں کوبھی سلام کہاجاتاتھالیکن جب انہوں نےثابت کردیاکہ وہ مسلمان بلکہ خوداللہ کےرسول اللہﷺکےلیے بھی سلامتی کےبجائےچالاکی سےہلاکت کی بددعادیتےہیں تویہ طریقہ اپنانےکاحکم دیاگیاکہ غیرمسلم اگرسلام کہیں توجواب میں سلام کہاجائےاوروہ اگروہ سام علیکم (آپ پرموت ہو،یااس جیسےاورجملے)کہیں توبھی ترکی بہ ترکی جواب دینےکےبجائےصرف علیکم کہنےپراکتفاکیاجائے۔ غیرمسلموں کےساتھ پرامن بقائےباہمی مسلمانوں کاوتیرہ ہے۔ جوسلامتی کےباہمی عہدکوتوڑدےاوردرپےآزادہوجائے تواس کی چیرہ دستیوں سےدفاع ضروری ہے۔
زمین پربسنےوالی اللہ کی دوسری مخلوقات کی سلامتی کوبھی یقینی بنانےکاحکم دیاگیاہے،البتہ جوموذی جانورانسانی آبادیوں میں گھس کرانسانوں اورانسان کےزیرحفاظت دوسرےچوپایوں کےلیے ضررسانی یاہلاکت کاباعث بنیں ان سےنجات حاصل کرنےکی اجازت دی گئی۔ ایسےموذی جانوروں میں بڑےاورچھوٹےسب طرح کےجانورشامل ہیں۔ اگرکوئی جانورموذی سمجھاجاتاہےلیکن وہ بھی عرصہ درازسےانسانی آبادی میں بس رہاہےتواپنےعمل سےاسےبھی سلامتی کےساتھ وہاں سےجانےکاپیغام دیناچاہیے،اگرپھربھی نہ جائےتواس سےچھٹکاراپانےکی اجازت ہے،ورنہ انسانی آبادی میں اپنی موجودگی سےغلط فائدہ اٹھاکروہ کل کلاں ہلاکت کاموجب بنےگا۔
سلامتی کےحوالےسےمسلمانوں کونہایت عمدہ آداب سکھائےگئےہیں۔ اجازت کےبغیرکسی کےگھرمیں داخل نہ ہونا،عورتیں ضروری کاموں سےباہرجائیں توان کےلیے راستوں کومحفوظ بنانااوربوقت ضرورت ان کی مددکرنا،معاشرےخاندانوں،خصوصاخواتین کی سلامتی کےتحفظ کےلیے کسی اجنبی خاتون کےساتھ خلوت میں نہ رہنااوراگرمحرم خاتون ساتھ ہےتوضرورت محسوس ہونےپراس کےساتھ اپنےرشتےکی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ سلامتی کےلیے گھروں اورمجلسوں کی سلامتی ضروری ہے۔ مجلسوں میں مساوات،ایک دوسرےکےحقوق کےتحفظ اوراہل مجلس میں سےہرایک کےآرام کاخیال رکھنےسےمجلسوں کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکتاہے،گھروں میں وہ لوگ داخل نہ ہوں جوفتنہ انگیزی کرسکتےہیں۔ دوآمیوں کی سرگوشی تک سےپرہیز اورضرورت کےوقت دوسروں کی مدداوران کےمسائل حل کرنےسےسب لوگوں کےدل میں سلامتی کااحساس مضبوط ہوتاہے۔
سلامتی کےمتعلق ان تمام امورکےبارےمیں رسول اللہﷺکےفرامین بیان کرنےکےبعدامام مسلم نےصحت سےمتعلق امورکوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےان بیماریوں کےحوالےسےاحادیث لائی گئی ہیں جن کےاسباب کاکھوج لگاناعام طبیب کےلیےناممکن یاکم ازکم مشکل ہوتاہے۔ ان میں جادو،نظربداورزہرخورانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کےعلاج کےلیے مختلف تدابیربتائی گئی ہیں جن میں دم کرنااوردعاکرناشامل ہیں، پھرمختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے ان مناسب طریقوں کاذکرہےجورسول اللہﷺکےزمانےمیں رائج تھے۔ ان میں سےکچھ طریقوں کورسول اللہﷺنےپسندفرمایا،کچھ کوناپسندکیا۔ یہ بھی بتایاگیاکہ آپ پسندفرماتےہیں کہ بیمارکودی جانےوالی دوائیں اورطریقہ علاج تکلیف دہ نہ ہواورغذاپسندیدہ اورعمدہ ہونی چاہیے۔ اس کےبعدمختلف وباؤں کےحوالےسےرسول اللہﷺکی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کےذریعےسےزیادہ سےزیادہ جانوں کاتحفظ کیاجاسکتاہے،بیمارہونےوالوں کی تیمارداری کویقینی بنانےکی ہدایات ہیں، اس کےبعدسلامتی کےحوالے سےمختلف اوہام کاذکرہےاورآخرمیں موذی جانوروں کےبارےمیں ہدایات ہیں اورعمومی طورپرہرجاندارکے ساتھ رحم دلی کاسلوک کرنےکی تلقین ہے۔
عبدالوحد بن زیاد نے کہا: ہمیں حسن بن عبید اللہ نے حدیث بیان کی۔ کہا: ہمیں ابراہیم بن سوید نے حدیث سنائی کہا: میں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے سنا، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’تمھا رے لیے میرے پاس آنے کی یہی اجازت ہے کہ حجاب اٹھا دیا جا ئے اور تم میرے راز کی بات سن لو، (یہ اجازت اس وقت تک ہے) حتی کہ میں تمھیں روک دوں‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ’’تیرے لیے میری یہی اجازت ہے کہ پردہ اٹھا دیا جائے اور تم میری سرگوشی سن لو، حتی کہ میں تمہیں روک دوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
تستمع سوادي: تم میری سرگوشی اور رازدارانہ گفتگو سن لو اور تمھیں میری موجودگی کا علم ہوجائے۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، کسی کو اجازت دینے کے لیے کوئی علامت یا نشانی مقرر کی جا سکتی ہے، اسی علامت کے طور پر آپ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ فرمایا، تیری آمد پر اگر پردہ اٹھا دیا جائے اور گھر میں میری موجودگی کا تمہیں یقین ہو جائے تو تم بلا روک ٹوک آ سکتے ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn Mas'ud reported: The Messenger of Allah (ﷺ) said to me: The sign that you have been permitted to come in is that the curtain is raised or that you hear me speaking quietly until I forbid you.