Muslim:
The Book of Greetings
(Chapter: Medicine, Sickness And Ruqyah)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2188.
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’نظر حق (ثابت شدہ بات) ہے، اگر کوئی ایسی چیز ہوتی جو تقدیر پر سبقت لے جاسکتی تو نظرسبقت ہے جاتی۔ اور جب (نظر بد کے علاج کےلیے) تم سے غسل کرنے کے لئے کہا جائے تو غسل کرلو۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
انسان کی خواہش، ارادےاور اس کی خواہش کی قوت کم و بیش ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کی اندرونی قوتیں بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ بعض جانوروں میں بھی یہ بات موجود ہے۔ بہت سے موذی جانور اپنی نگاہوں کے ذریعے سے اپنے شکار کو بے بس کر دیتے ہیں۔ انسانوں کی طرف سے غصے کے عالم میں ڈالی ہوئی نظر سامنے والے کو لرزا دیتی ہے۔ حسد بھی ایک ایسی ہی شدت کی کیفیت ہے۔ شدت کے عالم میں نظر کے ذریعے سے حسد کا جذبہ دوسرے انسان کو جس سے حسد کیا جا رہا ہو، شدید متأثر کرتا ہے۔ عین حاسد سے مراد حسد سے بھری ہوئی نظر ہی ہے۔ اس کے ذریعے سے محسود (جس سے حسد کیا جا رہا ہو) کو نقصان پہنچ جاتا ہے اور بعض اوقات بہت تیزی اور شدت سے پہنچتا ہے۔ اس کی شدت اتنی زیادہ ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق اگر کوئی چیز تقدیر سے مقابلہ کر سکتی ہوتی تو حاسد کی نظر ہوتی۔ جس شخص کو کسی کی نظر لگ جائے، اس کا علاج اس شخص کے حسد کا ازالہ ہے جس نے نظر لگائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے یہ حکم دیا ہے کہ جس کی نظر لگی ہے اس کے وضو کا پانی، بعض روایات میں ہے کہ غسل کا پانی اور بعض روایات میں وضو کے اعضاء، پہلو اور کمر کے نیچے کے حصوں کو دھو کر اس کا پانی اس شخص پر ڈالا جائے جس کو نظر لگی ہے۔ اس سے نظر لگانے والے کو اپنے تفوق کا احساس ہوتا ہے اور اس کے دل سے حسد زائل ہو جاتا ہے۔ اس حدیث میں بھی تلقین کی گئی ہے کہ جس کی نظر لگ جائےوہ ہر صورت میں غسل کر کے اس کا پانی مہیا کر دے تاکہ اسے نظر لگے پر انڈیل دیا جائے۔
اسلامی سلامتی کادین ہے۔ صرف انسان کےلیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کی سلامتی سکھاتاہے۔ ہرمسلمان کوسکھایاگیاہےکہ دنیاکاہروہ انسان جواللہ کاباغی نہیں اوردوسرےانسان کی سلامتی کاقائل ہےوہ صرف اسےسلامتی کایقین ہی نہ دلائےبلکہ سلامتی کی دعابھی دے۔ پہلافقرہ جوکوئی مسلمان کوکہتاہےوہ السلام علیکم ہے۔ وہ صرف اپنےمخاطب کوسلامتی کاپیغام اورسلامتی کی دعانہیں دیتابلکہ اس کےتمام ساتھیوں کوبھی اس میں شامل کرتاہے۔ قرآن مجیدنےمسلمانوں کےدرمیان سلامتی کی خواہش کےاظہاراوردعاکولازمی قراردیاہے۔ اسلام کونہ ماننےوالوں کوبھی سلام کہاجاتاتھالیکن جب انہوں نےثابت کردیاکہ وہ مسلمان بلکہ خوداللہ کےرسول اللہﷺکےلیے بھی سلامتی کےبجائےچالاکی سےہلاکت کی بددعادیتےہیں تویہ طریقہ اپنانےکاحکم دیاگیاکہ غیرمسلم اگرسلام کہیں توجواب میں سلام کہاجائےاوروہ اگروہ سام علیکم (آپ پرموت ہو،یااس جیسےاورجملے)کہیں توبھی ترکی بہ ترکی جواب دینےکےبجائےصرف علیکم کہنےپراکتفاکیاجائے۔ غیرمسلموں کےساتھ پرامن بقائےباہمی مسلمانوں کاوتیرہ ہے۔ جوسلامتی کےباہمی عہدکوتوڑدےاوردرپےآزادہوجائے تواس کی چیرہ دستیوں سےدفاع ضروری ہے۔
زمین پربسنےوالی اللہ کی دوسری مخلوقات کی سلامتی کوبھی یقینی بنانےکاحکم دیاگیاہے،البتہ جوموذی جانورانسانی آبادیوں میں گھس کرانسانوں اورانسان کےزیرحفاظت دوسرےچوپایوں کےلیے ضررسانی یاہلاکت کاباعث بنیں ان سےنجات حاصل کرنےکی اجازت دی گئی۔ ایسےموذی جانوروں میں بڑےاورچھوٹےسب طرح کےجانورشامل ہیں۔ اگرکوئی جانورموذی سمجھاجاتاہےلیکن وہ بھی عرصہ درازسےانسانی آبادی میں بس رہاہےتواپنےعمل سےاسےبھی سلامتی کےساتھ وہاں سےجانےکاپیغام دیناچاہیے،اگرپھربھی نہ جائےتواس سےچھٹکاراپانےکی اجازت ہے،ورنہ انسانی آبادی میں اپنی موجودگی سےغلط فائدہ اٹھاکروہ کل کلاں ہلاکت کاموجب بنےگا۔
سلامتی کےحوالےسےمسلمانوں کونہایت عمدہ آداب سکھائےگئےہیں۔ اجازت کےبغیرکسی کےگھرمیں داخل نہ ہونا،عورتیں ضروری کاموں سےباہرجائیں توان کےلیے راستوں کومحفوظ بنانااوربوقت ضرورت ان کی مددکرنا،معاشرےخاندانوں،خصوصاخواتین کی سلامتی کےتحفظ کےلیے کسی اجنبی خاتون کےساتھ خلوت میں نہ رہنااوراگرمحرم خاتون ساتھ ہےتوضرورت محسوس ہونےپراس کےساتھ اپنےرشتےکی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ سلامتی کےلیے گھروں اورمجلسوں کی سلامتی ضروری ہے۔ مجلسوں میں مساوات،ایک دوسرےکےحقوق کےتحفظ اوراہل مجلس میں سےہرایک کےآرام کاخیال رکھنےسےمجلسوں کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکتاہے،گھروں میں وہ لوگ داخل نہ ہوں جوفتنہ انگیزی کرسکتےہیں۔ دوآمیوں کی سرگوشی تک سےپرہیز اورضرورت کےوقت دوسروں کی مدداوران کےمسائل حل کرنےسےسب لوگوں کےدل میں سلامتی کااحساس مضبوط ہوتاہے۔
سلامتی کےمتعلق ان تمام امورکےبارےمیں رسول اللہﷺکےفرامین بیان کرنےکےبعدامام مسلم نےصحت سےمتعلق امورکوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےان بیماریوں کےحوالےسےاحادیث لائی گئی ہیں جن کےاسباب کاکھوج لگاناعام طبیب کےلیےناممکن یاکم ازکم مشکل ہوتاہے۔ ان میں جادو،نظربداورزہرخورانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کےعلاج کےلیے مختلف تدابیربتائی گئی ہیں جن میں دم کرنااوردعاکرناشامل ہیں، پھرمختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے ان مناسب طریقوں کاذکرہےجورسول اللہﷺکےزمانےمیں رائج تھے۔ ان میں سےکچھ طریقوں کورسول اللہﷺنےپسندفرمایا،کچھ کوناپسندکیا۔ یہ بھی بتایاگیاکہ آپ پسندفرماتےہیں کہ بیمارکودی جانےوالی دوائیں اورطریقہ علاج تکلیف دہ نہ ہواورغذاپسندیدہ اورعمدہ ہونی چاہیے۔ اس کےبعدمختلف وباؤں کےحوالےسےرسول اللہﷺکی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کےذریعےسےزیادہ سےزیادہ جانوں کاتحفظ کیاجاسکتاہے،بیمارہونےوالوں کی تیمارداری کویقینی بنانےکی ہدایات ہیں، اس کےبعدسلامتی کےحوالے سےمختلف اوہام کاذکرہےاورآخرمیں موذی جانوروں کےبارےمیں ہدایات ہیں اورعمومی طورپرہرجاندارکے ساتھ رحم دلی کاسلوک کرنےکی تلقین ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’نظر حق (ثابت شدہ بات) ہے، اگر کوئی ایسی چیز ہوتی جو تقدیر پر سبقت لے جاسکتی تو نظرسبقت ہے جاتی۔ اور جب (نظر بد کے علاج کےلیے) تم سے غسل کرنے کے لئے کہا جائے تو غسل کرلو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
انسان کی خواہش، ارادےاور اس کی خواہش کی قوت کم و بیش ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کی اندرونی قوتیں بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ بعض جانوروں میں بھی یہ بات موجود ہے۔ بہت سے موذی جانور اپنی نگاہوں کے ذریعے سے اپنے شکار کو بے بس کر دیتے ہیں۔ انسانوں کی طرف سے غصے کے عالم میں ڈالی ہوئی نظر سامنے والے کو لرزا دیتی ہے۔ حسد بھی ایک ایسی ہی شدت کی کیفیت ہے۔ شدت کے عالم میں نظر کے ذریعے سے حسد کا جذبہ دوسرے انسان کو جس سے حسد کیا جا رہا ہو، شدید متأثر کرتا ہے۔ عین حاسد سے مراد حسد سے بھری ہوئی نظر ہی ہے۔ اس کے ذریعے سے محسود (جس سے حسد کیا جا رہا ہو) کو نقصان پہنچ جاتا ہے اور بعض اوقات بہت تیزی اور شدت سے پہنچتا ہے۔ اس کی شدت اتنی زیادہ ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق اگر کوئی چیز تقدیر سے مقابلہ کر سکتی ہوتی تو حاسد کی نظر ہوتی۔ جس شخص کو کسی کی نظر لگ جائے، اس کا علاج اس شخص کے حسد کا ازالہ ہے جس نے نظر لگائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے یہ حکم دیا ہے کہ جس کی نظر لگی ہے اس کے وضو کا پانی، بعض روایات میں ہے کہ غسل کا پانی اور بعض روایات میں وضو کے اعضاء، پہلو اور کمر کے نیچے کے حصوں کو دھو کر اس کا پانی اس شخص پر ڈالا جائے جس کو نظر لگی ہے۔ اس سے نظر لگانے والے کو اپنے تفوق کا احساس ہوتا ہے اور اس کے دل سے حسد زائل ہو جاتا ہے۔ اس حدیث میں بھی تلقین کی گئی ہے کہ جس کی نظر لگ جائےوہ ہر صورت میں غسل کر کے اس کا پانی مہیا کر دے تاکہ اسے نظر لگے پر انڈیل دیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نظر لگنا، درست ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آ سکتی تو نظر بد غالب آ جاتی اور جب تمہیں غسل کرنے کے لیے کہا جائے تو غسل کر لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
وَلَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَيْنُ: اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت لے جا سکتی اور اس پر غالب آ سکتی تو نظر بد سبقت لے جاتی ہے، بعض نظر بد اسباب ظاہریہ میں سے ایک مضبوط سبب ہے، جو نقصان پہنچا سکتا ہے، لیکن یہ بھی دوسرے اسباب ظاہریہ کی طرح تقدیر پر غالب نہیں آ سکتا، جس کے حق میں اللہ تعالیٰ نے صحت و سلامتی کا فیصلہ کر دیا ہے، اسے نظر بد کسی صورت میں نقصان نہیں پہنچا سکتی، جیسا کہ جس کے حق میں اللہ نے زندگی کا فیصلہ کیا، زہر قاتل اس کی زندگی کا چراغ گل نہیں کر سکتا، خلاصہ کلام یہ ہے، کوئی ظاہری سبب کتنا ہی قوی اور مستحکم ہو، وہ تقدیر پر غالب نہیں آ سکتا، تقدیر ایک اٹل چیز ہے۔ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا: جب تمہیں غسل کے لیے کہا جائے تو غسل کرو، اگر کسی انسان کی کسی دوسرے کو نظر بد لگ جائے تو نظر بد والے کو اپنا چہرہ، دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت اور اپنے پاؤں گھٹنوں سمیت اور زیرناف حصہ یا چادر کا اندرونی حصہ ایک برتن میں دھو کر، نظر لگنے والے کو دینا چاہیے اور وہ پانی پیچھے سے اس کے سر اور پشت پر ڈالنا چاہیے، تاکہ اللہ کے حکم سے نظربد کا اثر زائل ہو جائے، حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو نظر لگ گئی تھی، جس سے وہ بے ہوش ہو گئے تو آپ نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا تھا، (سنن ابن ماجة:3554)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Abbas reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: The influence of an evil eye is a fact; if anything would precede the destiny it would be the influence of an evil eye, and when you are asked to take bath (as a cure) from the influence of an evil eye, you should take bath.