Muslim:
The Book of Virtues
(Chapter: The Obligation To Follow Him (SAW))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2357.
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں حدیث سنائی کہ انصار میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے حرہ میں واقع پانی کی ان گزرگاہوں (برساتی نالیوں) کے بارے میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جھگڑا کیا جن سے وہ کھجوروں کو سیراب کرتے تھے۔ انصاری کہتا تھا: پانی کو کھلا چھوڑ دو وہ آگے کی طرف گزر جائے، انھوں نے ان لوگوں کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جھگڑا لے آئے۔ رسول اللہ ﷺ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کو نرمی کی تلقین کرتے ہوئے ان) سے کہا: ’’تم (جلدی سے اپنے باغ کو) پلا کر پانی اپنے ہمسائے کی طرف روانہ کر دو۔‘‘ انصاری غضبناک ہو گیا اورکہنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! اس لئے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد ہے۔ (صدمے سے) نبی کریم ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’زبیر! (باغ کو) پانی دو، پھر اتنی دیر پانی کو روکو کہ وہ کھجوروں کے گرد کھودے گڑھے کی منڈیر سے ٹکرانے لگے‘‘ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا: اللہ کی قسم! میں یقیناً یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آیت: ’’نہیں! آپ کےرب کی قسم! وہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے‘‘ اسی (واقعے) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
تشریح:
فائدہ:
جب جھگڑا ہو تو ہر فریق خود کو حق پر سمجھتا ہے او ر جو اس کی خواہش ہوتی ہے اسی کے مطابق فیصلہ چاہتا ہے۔ برساتی نالوں سے اپنے باغ یا کھیت کو سیراب کرنے کا حق باری باری مل سکتاہے۔ اس کا بھی تعین رواج اور دستور کی روشنی میں ہو جاتا ہے کہ سیرابی سے کیا مراد ہے۔ حضرت زبیررضی اللہ تعالی عنہ کا باع انصاری کے باغ سے پہلے واقع تھا۔ پہلے انھی کا حق تھا کہ وہ دستور کے مطابق اتنا پانی اپنے درختوں کو لگائیں کہ ان کے گرد سیرابی کے لیے کھودے ہوئے گھڑے بھرنے کا انتظار نہ کریں، کچھ نہ کچھ پانی ہر درخت تک جائے تو باقی پانی اپنے ہمسائے کی طرف روانہ کر دیں لیکن انصاری اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے درختوں کو پلانے کے لیے سرے سے پانی ہی نہ روکیں۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کے بارے میں ایک نامناسب بات کہہ دی۔ رسول اللہ ﷺ کو اندازہ ہو گیا کہ زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے حق سے کم بھی لیں تو انصاری ناراض ہی رہے گا۔ آپﷺ نے عین عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ دے دیا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ہر ایک کو اس بات کی سمجھ آ جائے کہ پانی پلانے کے حقوق کیا ہیں اور آئندہ جھگڑے نہ ہوں۔ اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کی تائید کرتے ہوئے اور آپ کے مکمل انصاف کی شہادت دیتے ہوئے قرآن مجید کی آیت نازل فرمائی، اس سے واضح ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ صحیح ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کیے ہوئے فیصلے میں ہر انصاف پسند انسان کے لیے دلی رضا مندی کا مکمل سامان موجود ہوتا ہے۔
صحیح مسلم میں کتاب الفضائل خاص اہمیت کی حامل ہے۔ امام مسلم نےاس میں ترتیب ،تبویب اورانتخاب مضامین کےذریعےسےجومثال پیش کی ہےامت محمدیہ کےچوٹی کےسیرت نگاروں نےاس سےخوب استفادہ کیاہے۔ سیرومغازی کےساتھ ساتھ دلائل نبوت اورفضائل وشمائل،جواس کتاب میں نمایاں ہیں، بتدریج سیرت طیبہ میں نہ صرف شامل ہوئےبلکہ سیرت کالازمی حصہ بن گئے۔
اس کتاب کےابتدائی ابواب کوایک طرح کےمقدمےکی حیثیت حاصل ہے۔آغازآپﷺکےاعلیٰ حسب ونسب اورمخلوقات میں آپ کےبلندترین مقام سےہوتاہےحتی کہ بعثت سےپہلےہی جمادات کی طرف سےآپ کوسلام کیاجاتاتھا۔ اس کےفورابعداس بات کاتذکرہ ہےکہ اخروی زندگی میں بھی ساری مخلوقات پرآپ ہی کوفضیلت حاصل ہوگی۔
اس کےبعددلائل نبوت کولیاگیاہے۔آپ کےعظیم معجزات جوبیک وقت آپ کی نبوت کےدلائل اورایمان لانےوالےکےلیےاضافہ ایمان کاسبب ہیں، وہ رسول اللہﷺکےساتھیوں کی ایسی ضرورتوں کی تکمیل کاذریعہ بنےجن کی تکمیل کی کوئی صورت نکلتی نظرنہ آتی تھی۔ پانی کی شدیدقلت کےوقت جس سےانسانی زندگی کےضائع ہوجانےکاخدشہ پیداہوجائے،آپﷺکےجسداطہرکےذریعےسےاس کی فراوانی اسی قسم کاایک معجزہ ہ۔حضرت موسیکی قوم کوچٹانوں کےاندرسےچشمےنکال کرسیراب کیاگیاجبکہ نبیﷺکےساتھیوں کےلیے آپ کی مبارک انگلیوں سےچشمےپھوٹےیاآپ کےوضوکےلیےاستعمال کیےہوئےپانی کوقطرہ قطرہ بہتےہوئےچشمےمیں ڈالنےسےاایسی آب رسانی کاانتظام ہواکہ اس سارےبنجرعلاقےکوباغ وبہارمیں تبدیل کردیاگیا(يُوشِكُ، يَا مُعَاذُ إِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ، أَنْ تَرَى مَا هَاهُنَا قَدْ مُلِئَ جِنَانًا)’’معاذ!اگرتمہاری زندگی لمبی ہوئی توتم دیکھوگےکہ یہاں جوجگہ ہےوہ گھنےباغات سےلہلہااٹھےگی۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:5947)غزوہ تبوک کےسفرکےدوران میں آتےجاتےہوئےجن معجزات کاظہورہوا،ان کامطالعہ ایمان افروزہے۔ اس کےبعداس ہدایت اورشریعت کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں جوآپ لائے۔ اس پرصحیح طورپرعمل کرنےوالابھی دنیااورآخرت میں کامیاب ہےاورپوری طرح عمل نہ کرسکنےکےباوجوداس شریعت کوآگےپہنچانےوالااوراپنی نسلوں تک لےجانےوالابھی رحمت الہیٰ سےسرفرازہوا۔ اورجس نےنہ اپنایا،نہ آگےپہنچایاوہ ایسی بنجرزمین کےمانندہےجس پرکاونٹوں جھاڑجھنکارکےسواکچھ نہیں ہوتا۔ آپﷺبشیرکےساتھ ساتھ نذیربھی ہیں۔ آپ نےاللہ کےعذاب سے،جواس کی رضاکےانعام،جنت کیطرح برحق ہے،ڈرایا،جہنم میں لےجانےوالےاعمال کی نشاندہی فرمائی۔ جن لوگوں نےآپ کی بات مانی وہ جہنم سےبچ گئے۔ جنہوں نےانکارکیااوربعض وعنادکی شدت کی بناپرآگ میں گھسنےکی کوشش کی ،آپ نےان کوبھی بچانےکےلیےانتہائی کوششیں فرمائیں۔ آپ کی لائی ہوئی ہدایت کاعمل نمونہ آپﷺکااسوہ حسنہ ہے۔ آپ مکمل ترین پیکرجمال ہیں،اس جمال کی دلبربائی اوردلکشی ایسی ہےکہ ہرسلیم الفطرت انسان بےاختیاراس کی طرف کھچاچلاآتاہے۔ آپ ﷺکےاخلاق حسنہ،آپ کی بےکنارجودوسخا،آپ کی رحمت وعطا،آپ کی شفقت اورآپ کی حیااللہ کی ہدایت سےکنارہ کشی کرنےوالوں کوبھی زیادہ دورنہیں جانےدیتی ۔دنیاکےسب سےبڑےخوش نصیب تووہ لوگ تھےجنہوں نےآپ کی صفات حسنہ اوراخلاق عالیہ کےساتھ ساتھ آپ کےشخصی جمال کابھی اپنی آنکھوں سےمشاہدہ کیا۔ اوراحسان یہ کیاکہ وجوبہترین لفظ انہیں ملےان کےذریعےسےاسی جمال بےمثال کی تصویرکشی کی۔ آپ کےحلیہ مبارک سےلےکرآپ کے جسم مبارک سےنکلنےوالےمعطرپسینےکی خوشبوتک کوبیان کرنےکی سعادت حاصل کی ۔وہی خوشبوجس کےبارےمیں ام سلیمؓ نےکہاتھا:( عَرَقُكَ أَدُوفُ بِهِ طِيبِي)’’یہ آپ کاپسینہ اکٹھاکررہی ہوں کہ اس سےاپنےمشک وعنرکومعطرکرلوں۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6057)امام مسلم نےاس تذکرےکےساتھ ہی وہ احادیث بیان کردیں کہ آپ کوسب سےزیادہ پسینہ اس وقت تھاجب آپ پروحی الہیٰ نازل ہوتی تھی۔ اس طرح انہوں نےسمجھادیاکہ اس خوشبوکاسرچشمہ کیاتھا۔ مشک وعنرکاچشمہ تووہ جاندارہیں جواللہ کی مخلوق ہیں اورآپ کےپیکراطہرکی خوشبوکاسلسلہ اللہ کےکلام سےجڑاہواتھا۔ آپ کاقلب اطہرمہبط وحی الہیٰ تھاجوآنکھوں کی نیندکےدوران میں بھی اللہ سےرابطےکےلیےمسلسل بیداررہتاتھا، پھرآپ کےجسم اطہرکی خوشبومشک وعنرکوبھی معطرکرنےوالی کیوں نہ ہوتی!
آپﷺکےجمال بےپایاں کوبیان کرنےکےلیے دنیاکےفصیح ترین لوگوں نےبہترین الفاظ کاانتخاب کیا،لیکن ان کےبیان کاایک ایک لفظ اس بات کی گواہی دےرہاہےکہ الفاظ اس جمال بےمثال کوبیان کرنےسےعاجزہیں۔ جوجمال حقیقت میں موجودتھااس کےلیے زبان میں الفاظ ہی موجودنہیں تھے۔ حضرت انسکےالفاظ پرغورتو کریں(لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ، وَلَيْسَ بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ وَلَا بِالْآدَمِ وَلَا بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ)’’آپﷺبہت درازقدتھےنہ پستہ قامت،بالکل سفیدرنگ والےتھےنہ بالکل گندمی،بال چھوٹےگھنگرالےتھےنہ بالکل سیدھے۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6089)حضرت انسکےعلاوہ بیان کرنےوالےدوسرےصحابہ کےالفاظ بھی یہی اسلوب لیےہوئےہیں۔ کہاجاتاہےکہ بڑےمصوروں کی بعض تصویریں ایسی ہیں جن کی خوبصورتی کےمشاہدےاوران پرغوروخوض کرنےمیں بعض لوگوں نےاپنی عمریں بسرکردیں بعض عقل وخردسےبیگانہ بھی ہوگئے۔ آپ کےشمائل وخصائل اورآپ کی شریعت کی بعض خصوصیات بیان کرنےکےبعدامام مسلمنےکتاب فضائل النبیﷺکااختتام جس حدیث پرکیاہےوہ ایک انوکھی سمت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس پیکرجمال کےساتھ بےپناہ محبت کی طرف جس سےبڑھ کرکوئی اورجذبہ عظیم نہیں۔(وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ فِي يَدِهِ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أَحَدِكُمْ يَوْمٌ وَلَا يَرَانِي، ثُمَّ لَأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ مَعَهُمْ)’’اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں محمدکی جان ہے!تم لوگوں میں سےکسی پروہ دن ضرورآئےگاکہ وہ مجھےنہیں دیکھ سکےگا۔ اورمیری زیارت کرنااس کےلیے اپنےاس سارےاہل اورمال سےزیادہ محبوب ہوگاجوان کےپاس ہوگا۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6129)
امام مسلمنےآخری حدیث سےپہلے،اس کتاب کےآخری حصےمیں وہ احادیث بیان کیں جن میں رسول اللہﷺ کےاسمائےگرامی بیان کئےگئےہیں۔ اسمائےمبارکہ آپ کی ان صفات کی نشاندہی کرتےہیں جوآپ کےمشن کی عظمتوں اورآپ کی لائی ہوئیں ہدایت کی خصوصیات کی آئینہ دارہیں۔ آپ محمدہیں،احمدہیں،ماحی ہیں جن کےذریعےسےکفرختم ہوگا،حاشرہیں جن کےپیچھےلوگ اللہ کےسامنےحاضرہوں گے،عاقب ہیں کہ آپ کےذریعےسےہدایت کی تکمیل کےبعدکسی نبی کی بعثت کی ضرورت نہیں، آپ کواللہ نےرؤف ورحیم قراردیاہے،آپ کےاسمائےگرامی میں نبی التوبہ ہے،کیونکہ آپ نےتوبہ کےدروازےکےکواڑپورےکےپورے کھول دیےاورزندگی کےآخری لمحےتک توبہ کی قبولیت کی نویدسنائی ،اورآپﷺنبی الرحمۃ ہیں کہ دنیااورآخرت دونوں میں انسان آپ کی رحمت سےفیض یاب ہوں گے۔
اس کےبعدامام مسلمنےوہ احادیث ذکرکی ہیں جن میں آپﷺ کی شریعت کی بعض امتیازی خصوصیات کابیان ہے۔آپ کی شریعت کی اہم ترین خصوصیت یہ ہےکہ یہ آسان ترین شریعت ہے۔ آپ نےانسانی کمزوریوں کاخیال رکھتےہوئےاپنی امت کوجن آسانیوں اوررخصتوں کی خوشخبری سنائی،بعض لوگوں نےاپنےمزاج کی بناپران کوقبول کرناتقویٰ اورخشیت الہیٰ کےخلاف جانا،ان کےنزدیک اللہ کےقرب کےلیے شدیدمشقتیں اٹھاناضروری تھا۔ آپ نےانہیں یاددلایاکہ بنی نوع انسان میں آپ سےبڑھ کراللہ اوراس کےدین کوجاننےوالااورآپ سےبڑھ کرخشیت الہیٰ رکھنےوالااورکوئی نہیں۔ آپ نےواضح کیاکہ دین جتنےاحکام کی ضرورت تھی وہ آپ کےذریعےسےعطا کردیےگئےاورآنےدنوں اورآخرت کےبارےمیں جن باتوں کاعلم ہوناضروری تھاآپ نےوہ سب باتیں بتادی ہیں، اس لیے اطاعت کابہترین طریقہ یہی ہےکہ پورےاخلاص سےان باتوں کوسیکھاجائے،ان کوسمجھاجائےاورخلوص نیت کےساتھ ان پرعمل کیاجائے۔ خواہ مخواہ بال کی کھال نکالنےاوراحکام شریعت کےحوالےسےجوباتیں پہنچادی گئی ہیں ان کومزیدکریدنےسےمکمل اجتناب کیاجائے۔ یہ احکام قیامت تک کےلیےہیں۔ ہردورمیں علم واخلاص کےساتھ ان پرغوروخوض سےصحیح راہ واضح ہوتی رہےگی۔ جوشخص سمجھنےکےلیے نہیں، غیرضروری طورپرکریدنے کےلیے سوال کرےاوراس کےسوال کی بناپرکسی حلال چیزکےحوالےسےحرمت کاحکم سامنےآجائےتواس سےبڑاظالم کوئی نہیں۔ ہرزمانےمیں غوروفکرکرنےوالوں کےلیے ہدایت میسرہونااس شریعت کی عظیم ترین خصوصیت ہے۔ وقت سےپہلےمفروضوں کی بنیادپرسوال کھڑےکرنااوراپنی طرف سےان کےجوابات گھڑکرووقع پذیرہونےوالےاصل حالات میں غورکرنےوالوں کےلیے مشکلات کھڑی کرنایاغوروخوض اوراجتہادکےدروازے بندکرنایاکتاب وسنت کےبجائےدوسروں کی آراءکواجتہادکامحورقراردینا اس امت پرظلم ہےجس سےاجتناب ضروری ہے۔
نبیﷺکےفضائل کےبعدامام مسلمنےبعض دسرےانبیاءکےفضائل کےبارےمیں احادیث بیان کیں اورسب سےپہلےیہ حدیث لائےکہ انبیاءمختلف ماؤں کی اولادکی طرح ہیں جواہم ترین رشتےکےحوالےسےایک ہوتےہیں۔ یہ سب انبیاءاللہ کی طرف سےمعبوث ہیں۔ ان کادین ایک ہے۔ہرعہداورہرقوم کی ضرورت کےمطابق شریعتوں میں تھوڑاسااختلاف ہے۔ رسول اللہﷺکےذریعےسےدین کی تکمیل ہوئی ہےاورقیامت تک کےلیے ایسی عالمگیراوردائمی شریعت عطاکی گئی ہےجوفطرت انسانی کےعین مطابق ہے۔ حدیث کایہ ٹکڑااس بڑی حدیث کاحصہ ہےکہ حضرت عیسیکےساتھ میراخصوصی تعلق ہے۔
دین کی وحدت کےعلاوہ یہ تعلق بھی ہےکہ ان کےاوررسول اللہﷺکےدرمیان کوئی اورنبی نہیں۔ نہ حضرت عیسیکی بعثت کےبعدنہ ان کےدوبارہ دنیامیں آنےسےپہلے۔ حضرت عیسیٰکی والدہ حضرت مریمؑ کی والدہ کی دعاکی بناپرشیطان سےتحفظ حاصل ہوااوررسول اللہﷺنےاپنی امت کواسی دعاکی تلقین فرمائی۔ پھروہ حدیث بیان کی گئی کہ ایک چورنے،جسےحضرت عیسینےاپنی آنکھوں سےچوری کرتےدیکھاتھا، جب جھوٹ بولتےہوئےاللہ کی قسم کھالی توحضرت عیسیٰنےاللہ تعالیٰ کی عزت وجلال کےسامنےخوداپنی نفی کرتےہوئےیہ فرمایا:میں اللہ پرایمان لایااورجس چیزکےبارےمیں تم نےاللہ کی قسم کھائی، اس میں اپنےآپ کوغلط کہتاہوں۔ جس نبی کی عبودیت اورجلال الہٰی کےسامنےخشوع وخضوع کایہ عالم ہووہ خودکواللہ کابیٹاکیسےقراردےسکتاہے۔ یہ بہت بڑابہتان ہےجس سےحضرت عیسیٰبالکل پاک ہیں۔
پھراختصارسےحضرت ابراہیم،جوآپ کےمجدامجدہیں، کےفضائل بیان ہوئےہیں۔ اس لیےجب آپ کو’’خیرالبریہ‘‘کہاگیاتوآپ ﷺنےفرمایا: یہ لقب حضرت ابراہیمکےشایان شان ہےجن کامیں بیٹابھی ہوں اوران کی ملت کامتبع بھی۔ پھرحضرت ابراہیمکی فضیلت میں وہ معروف حدیث بیان کی گئی جس کابعض حضرات نےمفہوم سمجھےبغیرانکارکیاہے۔ حضرت ابراہیمنےتوحیدباری تعالیٰ کی وضاحت کےلیے دواوراپنی ذات کےلیے ایک جومفہوم مرادلیاہےاس کےحوالےسےوہ خلاف واقعہ تھیں۔ ایک نبی کےاردگردجب ہرطرف شرک ہی شرک کاتعفن پھیلاہواتواس فضامیں سانس لیتےہوئےاللہ جل وتعالیٰ کی شان میں اتنی بڑی گستاخی کےوقت ان کی روح اوران کاجسم جس طرح کی تکلیف محسوس کرےگا،اس سےبڑی تکلیف اورکیاہوسکتی ہے!اسی طرح آپ کایہ فرمان کہ اگریہ بت بولتےہیں توپھران میں سےسب سےبڑےنےباقیوں کےٹکڑےکیےہیں، حقیقت کےاعتبارسےصریح سچائی ہے۔ نہ یہ بولتےہیں،نہ بڑےبت نےکچھ کیاہے۔ یہ سب بےبس ہیں اوران کےشرک کرنےوالےاللہ پربہتان تراشی کررہےہیں۔ حضرت سارہکوجب اپنےساتھ بہن بھائی کارشتہ بتانےکوکہاتووضاحت فرمادی کہ عبادللہ سب کےسب آپس میں اخوت کےرشتےمیں پروئےہوئےہیں، فرمان نبوی ہے(وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا)’’اوراللہ کےبندےبھائی بھائی ہوجاؤ۔‘‘(صحیح مسلم ،حدیث:6536)اوراس سرزمین پریہی دوافرادایک اللہ کی بندگی کرنےوالےتھے۔ اس حقیقت کی بناپردونوں کےدرمیان یہ رشتہ بالکل سچ تھا، لیکن اس علاقےمیں حکمرانی کرنےوالےجابرنےاسےنسبی طورپربہن بھائی کارشتہ سمجھا۔ حضرت ابراہیمکاتقویٰ ایساتھاکہ ان تینوں باتوں کوجوان کےمرادلیےگئےمفہوم کےحوالے سےعین سچ تھیں، محض اللہ کےدشمنوں کےفہم کےحوالےسےکذب قراردیااورقیامت کےروزان کےحوالےسےاللہ کےسامنےپیش ہوکرشفاعت کرنےسےمعذرت فرمائی۔ کاش!اپنی بات کےحوالےسےلفظ کذب کےاستعمال میں ایک عظیم پیغمبرکی طرف سےجس تقویٰ اورتواضع،جس خشیت اورعبودیت کامظاہرہ کیاگیا،اس کی طرف نظرکی جاتی۔ ایساہوتاتوحدیث کےراویوں پرجھوٹ کابہتان باندھنےکی نوبت ہی نہ آتی۔
ان کےبعدحضرت موسیٰکےفضائل ہیں۔ بنی اسرائیل نےآپ کی شان کم کرنےکےلیے آپ کی طرف جوجسمانی عیب منسوب کیاتھا، اللہ نےانہیں اس سےبری ثابت کیا۔ حضرت موسیٰ اس قدرقوی تھےکہ کپڑےلےکربھاگنےوالےپتھرپرجوضربیں لگائیں وہ اس پرثبت ہوگئیں۔ جب ملک الموت انسان کی شکل میں آپ کےپاس آیااورکہاکہ اب آپ کی اللہ کےسامنےحاضری کاوقت آگیاہےتوکلیم اللہ نےاسےدشمن سمجھتےہوئےتھپڑ مارااوراس کی آنکھ پھوڑدی،پھرجب پتہ کہ یہ واقعی اللہ سےملاقات کاوقت تھاتومہلت کی پیش کش کےباوجوداسی وقت حاضری کوترجیح دی۔ رسول اللہﷺنےانبیاءکی شان اوران کی فضیلت کےمطابق ان کےاحترام کی تعلیم دینےکےلیےاس بات پرناراضی کااظہارفرمایاکہ دوسرےانبیاءکےماننےوالوں کےسامنےرسول اللہﷺکو ان سےافضل قراردیاجائے۔ آپﷺنےفرمایاکہ میں تویہ بھی گوارانہیں کرتاکہ کوئی مجھےحضرت یونس بن متّیٰ سےافضل قراردےجن کےبارےمیں قرآن مجیدنےواضح کیاہےکہ وہ اللہ کی طرف سےاجازت کےبغیربستی سےنکل آئےتھےاوراس وجہ سےانہیں مچھلی کےپیٹ میں جاناپڑا،پھراللہ کی رحمت کےطفیل وہاں سےنجات حاصل ہوئی۔ جب آپﷺ کےسامنےحسب ونسب میں عزت مندی کےحوالےسےآپ کےبلندمرتبےکاذکر ہواتوآپﷺ نےحضرت یوسف کوبہ کمال تواضع سب سےزیادہ عزت مندقراردیاجونبی ابن نبی ابن نبی ابن نبی تھے۔ آپﷺنےاس حوالےسےبھی حضرت یوسفکی فضیلت بیان فرمائی کہ بہت لمباعرصہ بےگناہ قیدخانےمیں گزارنےکےباوجودآپ نےبادشاہ کی طرف سےبلاواآتےہی فوراجیل سےباہرآنےکےبجائےاپنے اوپرلگنےوالےالزام پرمبنی مقدمےکافیصلہ مانگا۔
آخرمیں حضرت خضرکےفضائل ہیں۔ حضرت موسیٰ اورخضرکےواقعےسےبڑاسبق یہ ملتاہےکہ کسی جلیل القدراوراولوالعزم پیغمبرکوبھی یہ نہیں سمجھناچاہیےکہ اس کاعلم سب سےبڑھ کرہے۔ فضائل نبی میں یہ حدیث بیان ہوچکی کہ آپ نےعام لوگوں سےیہ کہاکہ دنیاکےمعاملات میں اپنےمیدان کےبارےمیں جن چیزوں کوان میں تم زیادہ جانتےہو،اپنی معلومات پرچلولیکن میں جب اللہ کاحکم پہنچاؤں تواس پرضرورعمل کرو۔ غورکیاجائےتواتواضع اورانکسارکےحوالےسےبھی ،جوعبودیت کالازمی حصہ ہیں، آپﷺ کی فضیلت ارفع واعلیٰ ہے۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں حدیث سنائی کہ انصار میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے حرہ میں واقع پانی کی ان گزرگاہوں (برساتی نالیوں) کے بارے میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جھگڑا کیا جن سے وہ کھجوروں کو سیراب کرتے تھے۔ انصاری کہتا تھا: پانی کو کھلا چھوڑ دو وہ آگے کی طرف گزر جائے، انھوں نے ان لوگوں کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جھگڑا لے آئے۔ رسول اللہ ﷺ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کو نرمی کی تلقین کرتے ہوئے ان) سے کہا: ’’تم (جلدی سے اپنے باغ کو) پلا کر پانی اپنے ہمسائے کی طرف روانہ کر دو۔‘‘ انصاری غضبناک ہو گیا اورکہنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! اس لئے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد ہے۔ (صدمے سے) نبی کریم ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’زبیر! (باغ کو) پانی دو، پھر اتنی دیر پانی کو روکو کہ وہ کھجوروں کے گرد کھودے گڑھے کی منڈیر سے ٹکرانے لگے‘‘ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا: اللہ کی قسم! میں یقیناً یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آیت: ’’نہیں! آپ کےرب کی قسم! وہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے‘‘ اسی (واقعے) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
جب جھگڑا ہو تو ہر فریق خود کو حق پر سمجھتا ہے او ر جو اس کی خواہش ہوتی ہے اسی کے مطابق فیصلہ چاہتا ہے۔ برساتی نالوں سے اپنے باغ یا کھیت کو سیراب کرنے کا حق باری باری مل سکتاہے۔ اس کا بھی تعین رواج اور دستور کی روشنی میں ہو جاتا ہے کہ سیرابی سے کیا مراد ہے۔ حضرت زبیررضی اللہ تعالی عنہ کا باع انصاری کے باغ سے پہلے واقع تھا۔ پہلے انھی کا حق تھا کہ وہ دستور کے مطابق اتنا پانی اپنے درختوں کو لگائیں کہ ان کے گرد سیرابی کے لیے کھودے ہوئے گھڑے بھرنے کا انتظار نہ کریں، کچھ نہ کچھ پانی ہر درخت تک جائے تو باقی پانی اپنے ہمسائے کی طرف روانہ کر دیں لیکن انصاری اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے درختوں کو پلانے کے لیے سرے سے پانی ہی نہ روکیں۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کے بارے میں ایک نامناسب بات کہہ دی۔ رسول اللہ ﷺ کو اندازہ ہو گیا کہ زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے حق سے کم بھی لیں تو انصاری ناراض ہی رہے گا۔ آپﷺ نے عین عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ دے دیا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ہر ایک کو اس بات کی سمجھ آ جائے کہ پانی پلانے کے حقوق کیا ہیں اور آئندہ جھگڑے نہ ہوں۔ اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کی تائید کرتے ہوئے اور آپ کے مکمل انصاف کی شہادت دیتے ہوئے قرآن مجید کی آیت نازل فرمائی، اس سے واضح ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ صحیح ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کیے ہوئے فیصلے میں ہر انصاف پسند انسان کے لیے دلی رضا مندی کا مکمل سامان موجود ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن زبیر بیان رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی کا، حرہ کی نالیوں کے بارے میں، جن سے وہ نخلستان کو پانی پلاتے ، رسول اللہ ﷺ کے پاس، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے جھگڑا ہوا، انصاری نے کہا، پانی کو چھوڑئیے، وہ بہتا رہے ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے انکار کیا، رسول اللہﷺ کے سامنے جھگڑا پیش ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے زبیر! بقدر ضرورت زمین کو سیراب کر لواور پھر پانی پڑوسی کے لیے چھوڑ دو۔‘‘ انصاری عصہ میں آ گیااور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول! یہ فیصلہ اس لیے ہو ا کہ یہ آپﷺ کا پھوپھی زاد ہے! نبی اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’اے زبیر! زمین کو پانی پلاؤ، پھر پانی روک لو حتی کہ وہ منڈیر (روک) تک پہنچ جائے۔‘‘ حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ، اللہ کی قسم! میرے خیال میں یہی آیت اس سلسلہ میں اتری ہے، ’’بات وہ نہیں جو یہ سمجھتے ہیں، تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے، جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو حکم تسلیم نہ کریں، پھر آپﷺ کے فیصلہ کے بارے میں، اپنے دلوں میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں۔‘‘ (نساء: 75)
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) شراج: شرج کی جمع ہے، نالی۔ (2) سرح الماء: پانی چھوڑ دیجئے، اسے روکئے نہیں۔
فوائد ومسائل
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی زمین پہلے واقع تھی اور اس انصاری صحابی کی زمین ان کے بعد تھی، اس لیے پہلے حق حضرت زبیر کا تھا، جب حضرت زبیر نے کچھ پانی لگا لیا تو انصاری نے کہا، پانی میری طرف آنے دیجئے، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا، میری ضرورت پوری نہیں ہوئی، اس لیے میں ابھی نہیں چھوڑوں گا، جھگڑا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے زبیر کے حق کی بنا پر انہیں کہا، بقدر کفایت پانی لگا لو، رکاوٹوں تک پانی نہ پہنچاؤ، پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو، اس طرح آپ نے صلح جوئی کے لیے یہ مشورہ دیا، یہ اصولی فیصلہ نہ تھا، لیکن انصاری چاہتا تھا، اس کی رعایت کی جائے، اس لیے غصہ میں آ گیا اور ایسی بات کہہ دی، جو ایک مسلمان کے لیے زیبا نہیں ہے، بلکہ کفر و ارتداد کا باعث ہے، لیکن چونکہ ابھی ابتدائی حالات تھے اور اس نے غیر شعوری طور پر بلا سوچے سمجھے یہ بات کہہ دی تھی، اس لیے آپ نے عفوودرگزر سے کام لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر پیغمبر کے مقام و مرتبہ کی تعیین کرتے ہوئے یہ ہدایت فرمائی کہ ایمان دار کے لیے ضروری ہے، وہ آپ کا فیصلہ دل و جان سے قبول کرے اور اس کے بارے میں زبان پر تو کیا لانا ہے، دل میں بھی ناگواری محسوس نہ کرے، چونکہ انصاری نے جذبات کی رو میں بہہ کر اپنی رعایت کو حضرت زبیر کی رعایت سمجھا، اس لیے آپ نے پھر دو ٹوک فیصلہ سنا دیا اور پہلے زمین والے کے حق کی تعیین کر دی کہ وہ منڈیر بھرنے تک پانی لگانے کا حقدار ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Urwa bin Zubair reported that 'Abdullah bin Zubair had narrated to him that a person from the Ansar disputed with Zubair in the presence of Allah's Messenger (ﷺ) in regard to the watering places of Harra from which they watered the date-palms. The Ansari said: Let the water flow, but he (Zubair) refused to do this and the dispute was brought to Allah's Messenger (ﷺ) and he said to Zubair: Zubair, water (your date-palms), then let the water flow to your neighbor. The Ansari was enraged and said: Allah's Messenger, (you have given this decision) for he is the son of your father's sister. The face of Allah's Apostle (ﷺ) underwent a change, and then said: Zubair, water (your date-palms), then hold it until it rises up to the walls. Zubair said: I think, by Allah, that this verse: "Nay, by the Lord, they will not (really) (believe) until they make thee a judge of what is in dispute among them, and find in this no dislike of what thou decidest and submit with full submission" (iv. 65).