Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: Wiping over the khuff (leather socks))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
272.
ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے ہمام سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت جریر (بن عبد اللہ البجلیؓ) نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، تو ان سے کہاگیا: آپ یہ کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ’’ہاں! میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔‘‘ اعمش نے کہا: ابراہیم نے بتایا: کہ لوگوں (ابن مسعودؓ کے شاگردوں) کو یہ حدیث بہت پسند تھی، کیونکہ جریر ؓ سورۂ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔ (سورۂ مائدہ میں آیت وضو نازل ہوئی تھی اور آپ کا یہ عمل اس کے بعد کا تھا جو آیت سے منسوخ نہیں ہوا تھا)
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے ہمام سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت جریر (بن عبد اللہ البجلیؓ) نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، تو ان سے کہاگیا: آپ یہ کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ’’ہاں! میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔‘‘ اعمش نے کہا: ابراہیم نے بتایا: کہ لوگوں (ابن مسعودؓ کے شاگردوں) کو یہ حدیث بہت پسند تھی، کیونکہ جریر ؓ سورۂ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔ (سورۂ مائدہ میں آیت وضو نازل ہوئی تھی اور آپ کا یہ عمل اس کے بعد کا تھا جو آیت سے منسوخ نہیں ہوا تھا)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہمام بیان کرتے ہیں: حضرت جریرہ ؓ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، تو ان سے کہا گیا: آپ یہ کام کرتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: ہاں! میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔‘‘ ابراہیم بیان کرتے ہیں: لوگوں کو یہ حدیث بہت پسند تھی، کیونکہ جریرہ ؓ سورہٴ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
معلوم ہوتا ہے صحابہ کرام ؓ سورۂ مائدہ کی آیت سے پاؤں دھونے کا حکم سمجھتے تھے، اگر وہ اس آیت سے پاؤں پر مسح کا حکم سمجھتے، تو انہیں یہ حدیث اتنی زیادہ پسند نہ ہوتی۔ اگر وہ حضرت جریرؓ سورۂ مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے مسلمان ہوچکے ہوتے تو یہ احتمال پیدا ہوسکتا تھا، کہ مسح کا حکم مائدہ کی آیت سے جو دھونے پر دلالت کرتی ہے، منسوخ ہوچکا ہے، اس لیے تمام اہل سنت کے نزدیک موزوں پر مسح کرنا جائز ہے،صرف شیعہ اور خارجی اس کے منکر ہیں۔ ان کے نزدیک موزوں پر مسح نہیں ہوسکتا، خارجیوں کے نزدیک پاؤں دھوئے جائیں گے، اور شیعہ کے نزدیک پاؤں پر مسح ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Hummam reported: Jarir urinated, then performed ablution and wiped over the socks. It was said to him: Do you do like this? He said: Yes, I saw that the Messenger of Allah (ﷺ) urinated, then performed ablution and then wiped over his shoes. A'mash said: Ibrahim had observed that this hadith was a surprise for them (the people) because Jarir had embraced Islam after the revelation of Surat al-Ma'ida.