Muslim:
The Book of Commentary on the Qur'an
(Chapter: Sural Baraah (Ar-Tawbah), Al-Anfal And Al-Hashr)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3031.
ابو بشر نے سعید بن جبیر سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے کہا: سورۃ التوبہ؟ انہوں نے فرمایا: کیا توبہ؟ بلکہ وہ تو (کفار اور منافقین کو) ذلیل کرنے والی ہے اس میں مسلسل: ’’اور ان میں ایسے لوگ ہیں‘‘ (سے شروع ہونے) والی آیات اترتی رہیں، یہاں تک کہ ان (منافق) لوگوں کو گمان ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا، مگر اس (کی اصلیت) کے بارے میں اس سورت میں بیان ہوجائے گا۔ (سعید بن جبیر نے) کہا: میں نے پوچھا: سورہ انفال؟ انہوں نے کہا: یہ بدر (کے احوال بیان کرنے) والی سورت ہے۔ کہا: میں نے پوچھا: تو الحشر؟ انہوں نے کہا: یہ بنی نضیر (کے انجام) کے بارے میں نازل ہوئی
صحیح مسلم کا آخری حصہ کتاب التفسیر پر مشتمل ہے ۔ یہ انتہائی مختصر ہے۔بظاہر لگتا ہے کہ امام مسلم نے تفسیر کےحوالے سے جو صحیح احادیث موجود تھیں ان کا احاطہ کرنے کی کوشش نہیں لیکن اگر اس کتاب کی احادیث اور ان کی ترتیب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تفسیر سے متعلقہ احادیث کا احاطہ ان کا مقصود ہی نہیں تھا بلکہ انہوں نے کتاب التفسیر کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ تفسیر سے بنیادی اصول سمجھ میں آ جائیں اس کتاب کے پہلے باپ میں متفرق آیات کی تفسیر پر مشتمل احادیث ہیں سب سے پہلی حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ ہدایث بلکہ اس کے الفاظ تک انتہائی اہم ہیں ،ان کا تحفظ اور ان کے مقصود کے مطابق ان پر عمل کرنا کامیابی کا ذریعہ ہے وحی کے الفاظ کو سنجیدگی سے نہ لینے والے اور انھیں استہزا کا نشانہ بنانے والے یہودی طرح اللہ کے غضب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔دوسری حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن ،جو اللہ کی وحی ہے ،انسانوں کی ضرورت اور حالات کے مطابق نازل ہوا ہے اس کے بعد حضرت عمر سے مروی احادیث ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام نے جن جن مواقع پر اور جن حالات میں قرآن مجید نازل ہوا ان کو اچھی طرح یاد رکھا ،وہ ان سب باتوں سے پہلے دن سے ہی آگاہ تھے پھر مختلف آیات کی تفسیر میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول احادیث ہیں ان احادیث سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کے بعض وضاحت طلب مقامات و صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ان حالات کو پیش نظر رکھنا نا گزیر ہے جن میں آیات کا نزول ہوا۔حضرت عائشہ ؓ سے جن آیات کی تفسیر ان احادیث میں منقول ہے ان کا صحیح مفہوم حضرت عائشہ ؓ کی تفسیر سے سمجھ میں آتا ہے حضرت عائشہ ؓ نے مفہوم کا تعین ان حالات کی بنیاد پر اور اس ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا جس کے مطابق آیات نازل ہوئیں یہ بھی ایک دلچسپ پہلو ہے کہ امام مسلم نے حضرت عائشہ کے حوالے سے جو احادیث بیان کیں ان کا تعلق انہی آیات سے ہے جو خواتین کے حقوق اور خانکی معاملات کے بارے میں نازل ہوئیں ،لیکن ان کی تفسیر انہی مسائل سے متعلقہ آیات تک محدود نہیں۔بطور نمونہ جنگ خندق کے دوران میں مسلمانوں کی حالت کی منظر کشی کرنے والی آیات کے تعین پر مبنی حدیث بھی شامل ہے اسی طرح وہ حدیث بھی شامل ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ نے قرآن کی آیت کو رسول اللہ ﷺ کے بعد کے حالات پر منطبق کر کے ڈھایا ہے۔
اس کے بعد ابن عباس سے مروی احادیث ہیں انھوں نے ان آیات کا مفہوم جن کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا نزول کے حالات اور آیا ت کی ترتیب کی روشنی میں کر کے رہنمائی مہیا کی اور اختلاف مٹایا ۔ان کی تفسیر سے پتا چلا کہ وہ قرآن کے حکم اور مفہوم کے حوالے سے کسی قسم کا رعایتی پہلو تلاش کرنے کے روادرانہ تھے ۔حضرت ابن عباس ؓ ترتیب نزول کو ملحوظ رکھنے کی اہمیت ک کو واضح کرنے کے لیے تفسیر کے طالب علموں سے اس کے متعلق سوال بھی کرتے تھے ۔ (حدیث:7546) پھر امام مسلم نے حضرت براء بن عازب ،حضرت عبداللہ بن مسعود ،حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت جابر سے مختلف روایات پیش کیں اور کھایا کہ صحابہ کرام کس طرح مختلف حالات میں اترنے والی آیات مبارکہ کا مفہوم ان حالات کی روشنی میں کرتے تھے اور اس طریق سے مفہوم کس قدر واضح ہو جاتا ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ نے قرآن کے طالب علموں کی تفہیم کے لیے مختلف سورتوں کے موضوعات کی نشاندہی کر کے کام آسان فرمایا۔ تفسیر کے حوالے سے یہ بھی انتہائی اہم نکتہ ہے ۔
شراب کی حرمت کے حوالے سے حضرت عمر ؓ سے مروی جو احادیث پیش کی گئیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ مفہوم کے تعین کے لیے شان نزول کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے لیکن اس سے ان کے حکم میں کسی طرح کی تخصیص یا تحدید نہیں ہوتی۔ شان نزول سے صحیح مفہوم کا تعین ہوتا ہے لیکن حکم عام اور دائمی ہوتا ہے ان کی حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ بات لازمی نہیں کہ ہر ایک کے لیے ہر آیت کا مفہوم واضح ہو ان کو کچھ معاملات میں مشکلات در پیش تھیں انہوں نے ان کی نشاندہی فرمائی اور واضح کیا کہ قرآن کے مفہوم کا تعین آپ ﷺ کے فرامین کی روشنی ہی میں ہو سکتا ہے انہوں نے سرعام صحابہ کے سامنے ذکر کر کے ان کی حمتوں و مہمیہ دی کہ وہ ایک دوسرے سے رسول اللہ ﷺ کے زیادہ سے زیادہ فرامین معلوم کریں ، ان بر غورو خوض کریں اور مشکل مسائل کو حل کریں الحمدللہ امت نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بہترین نتائج سامنے آئے۔
حضرت ابوذر ؓ سے مروی آخری حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ فرامین رسول اور آثارصحابہ میسر نہ ہوں تو قرآن مجید کی اصل تفسیر ممکن ہی نہیں۔ اصل تفسیر ، تفسیرثور ہی ہے۔
ابو بشر نے سعید بن جبیر سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے کہا: سورۃ التوبہ؟ انہوں نے فرمایا: کیا توبہ؟ بلکہ وہ تو (کفار اور منافقین کو) ذلیل کرنے والی ہے اس میں مسلسل: ’’اور ان میں ایسے لوگ ہیں‘‘ (سے شروع ہونے) والی آیات اترتی رہیں، یہاں تک کہ ان (منافق) لوگوں کو گمان ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا، مگر اس (کی اصلیت) کے بارے میں اس سورت میں بیان ہوجائے گا۔ (سعید بن جبیر نے) کہا: میں نے پوچھا: سورہ انفال؟ انہوں نے کہا: یہ بدر (کے احوال بیان کرنے) والی سورت ہے۔ کہا: میں نے پوچھا: تو الحشر؟ انہوں نے کہا: یہ بنی نضیر (کے انجام) کے بارے میں نازل ہوئی
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا، سورہ توبہ فرمانے لگے، کیا وہ توبہ ہے؟ بلکہ وہ تو فاضحہ (رسوا کرنے والی) ہے۔ اس میں بار بار منھم، منھم، اترتا رہا۔ حتی کہ انہوں نے (منافقوں نے) یہ سمجھا، یہ ہم میں سے کسی کا ذکرکیے بغیر نہیں رہے گی۔ (ہم سب کو رسوا کر کے چھوڑے گی) میں نے پوچھا: سورہ انفال (اس کو انفال کیوں کہتے ہیں؟) انہوں نے فرمایا، وہ سورہ بدر ہے، (بدر کے واقعات کا تذکرہ ہے) میں نے کہا: توسورہ حشر؟ فرمانے لگے: یہ بنونضیر کے بارے میں اتری ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sa'id bin Jubair reported: I said to Ibn 'Abbas about Sura Tauba, whereupon he said: As for Sura Tauba, it is meant to humiliate (the non-believers and the hypocrites). There is constantly revealed in it (the pronoun) minhum (of them) and minhum (of them), i. e. such is the condition of some of them) till they (the Muslims) thought that none would be left unmentioned out of them who would not be blamed (for one fault or the other). I again said: What about Sura Anfal? He said: It pertains to the Battle of Badr. I again asked him about Sura al-Hashr. He said: It was revealed in connection with (the tribe) of Banu Nadir.