Muslim:
The Book of Mosques and Places of Prayer
(Chapter: The times of the five prayers)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
613.
سفیان نے ہمیں علقمہ بن مرثد سے حدیث بیان کی انھوں نے سلیمان بن برید سے، انھوں نے اپنے والد (بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ) سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے آپ ﷺ سے نماز کے وقت کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ہمارے ساتھ یہ دو دن نماز پڑھو۔‘‘ جب سورج ڈھلا تو آپﷺ نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو اذان کہنے کا حکم دیا، انھوں نے اذان کہی، پھر آپﷺ نے انھیں حکم دیا تو انھوں نے ظہر کی کے تکبیر کہی، پھر آپﷺ نے انھیں حکم دیا تو انھوں نے عصر کے لیے اقامت کہی، اور اس وقت سورج بلند، روشن غروب ہوا تو آپﷺ نے بلا ل رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا، انھوں نے مغرب کے لیے اقامت کہی پھر نے ان کو حکم دیا تو انھوں نے عشاء کے لیے اقامت کہی، اس وقت سرخی غائب ہو گئی تھی، پھر جب فجر طلوع ہوئی تو آپﷺ نے حکم دیا تو انھوں نے فجر کے لیے اقامت کہی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپﷺ نے انھیں (بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو) حکم دیا تو انھوں نے ظہر کے لیے دن ٹھنڈا ہونے دیا، انھوں نے اسے ٹھنڈا کیا اور خوب ٹھنڈا کیا اور عصر کی نماز پڑھی جبکہ سورج بلند تھا (البتہ) پہلے کی نسبت زیادہ تاخیر کی اور مغرب کی نماز شفق (سرخی) کے غروب ہونے سے (کچھ ہی) پہلے پڑھی اور عشاء کی نماز تہائی رات گزر جانے کےبعد پڑھی اور فجر کی نماز پڑھی تو روشنی پھیلنے دی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟‘‘ تو اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تمھاری نمازوں کا وقت ان اوقات کے درمیان ہے جو تم نے دیکھے۔‘‘
امام مسلم کتاب الصلاۃ میں اذان اقامت اور بنیادی ارکانِ صلاۃ کے حوالے سے روایات لائے ہیں۔ مساجد اور نماز سے متعلقہ ایسے مسائل جو براہ راست ارکانِ نماز کی ادائیگی کا حصہ نہیں نماز سے متعلق ہیں انھیں امام مسلم نے کتاب المساجد میں ذکر کیا ہے مثلاً:قبلۂ اول اور اس کی تبدیلی نماز کے دوران میں بچوں کو اٹھانا‘ضروری حرکات جن کی اجازت ہے نماز میں سجدے کی جگہ کو صاف یا برابر کرنا ‘ کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنا‘بدبو دار چیزیں کھا کر آنا‘وقار سے چلتے ہوئے نماز کے لیے آنا‘بعض دعائیں جو مستحب ہیں حتی کہ اوقات نماز کو بھی امام مسلم نے کتاب المساجد میں صحیح احادیث کے ذریعے سے واضح کیا ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع حصہ ہے جو انتہائی ضروری عنوانات پر مشتمل ہے اور کتاب الصلاۃ سے زیادہ طویل ہے۔
سفیان نے ہمیں علقمہ بن مرثد سے حدیث بیان کی انھوں نے سلیمان بن برید سے، انھوں نے اپنے والد (بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ) سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے آپ ﷺ سے نماز کے وقت کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ہمارے ساتھ یہ دو دن نماز پڑھو۔‘‘ جب سورج ڈھلا تو آپﷺ نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو اذان کہنے کا حکم دیا، انھوں نے اذان کہی، پھر آپﷺ نے انھیں حکم دیا تو انھوں نے ظہر کی کے تکبیر کہی، پھر آپﷺ نے انھیں حکم دیا تو انھوں نے عصر کے لیے اقامت کہی، اور اس وقت سورج بلند، روشن غروب ہوا تو آپﷺ نے بلا ل رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا، انھوں نے مغرب کے لیے اقامت کہی پھر نے ان کو حکم دیا تو انھوں نے عشاء کے لیے اقامت کہی، اس وقت سرخی غائب ہو گئی تھی، پھر جب فجر طلوع ہوئی تو آپﷺ نے حکم دیا تو انھوں نے فجر کے لیے اقامت کہی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپﷺ نے انھیں (بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو) حکم دیا تو انھوں نے ظہر کے لیے دن ٹھنڈا ہونے دیا، انھوں نے اسے ٹھنڈا کیا اور خوب ٹھنڈا کیا اور عصر کی نماز پڑھی جبکہ سورج بلند تھا (البتہ) پہلے کی نسبت زیادہ تاخیر کی اور مغرب کی نماز شفق (سرخی) کے غروب ہونے سے (کچھ ہی) پہلے پڑھی اور عشاء کی نماز تہائی رات گزر جانے کےبعد پڑھی اور فجر کی نماز پڑھی تو روشنی پھیلنے دی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟‘‘ تو اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تمھاری نمازوں کا وقت ان اوقات کے درمیان ہے جو تم نے دیکھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت سلیمان بن بریدہ رحمتہ اللہ علیہ اپنے پاب سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے نماز کے وقت کے بارے میں سوال کیا؟ تو آپﷺ نے اسے فرمایا: ہمارے ساتھ دو دن نماز پڑھو۔ جب سورج ڈھل گیا تو آپ ﷺ نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو اذان کہنے کا حکم دیا، پھر آپﷺ نے اسے حکم دیا تو اس نے ظہر کے لیے تکبیر کہی، پھر آپﷺ نے (عصر کا وقت ہونے پر) بلال ﷺ کو حکم دیا تو انہوں نے (پہلے اذان دی پھر) عصر کے لیے اقامت کہی۔ (اور یہ اذان و اقامت میں ہوئی کہ) سورج بلند، روشن اور صاف تھا (یعنی اس کی روشنی میں فرق نہیں پڑا تھا) پھر آپﷺ نے سورج کے غروب ہونے پر بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا (انہوں نے پہلے اذان کہی اور پھر) مغرب کے لیے اقامت کہی، پھر جب سرخی غائب ہو گئی تو آپﷺ نے ان کو حکم دیا اور انہوں نے (عشاء کی اذان دی پھر) عشاء کے لیے اقامت کہی۔ پھر (رات کے ختم ہونے پر) فجر کے طلوع ہونے پر انہیں حکم دیا اور انہوں نے (فجر کی اذان کہنے کے بعد) فجر کے لیے اقامت کہی، پھر جب دوسرا دن آیا تو آپﷺ نے ظہر کی نماز کو ٹھنڈے وقت میں قائم کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اسے ٹھنڈا کیا اور خوب ٹھنڈا کیا اور عصر کی نماز پڑھی جبکہ سورج بلند تھا لیکن پہلے دن سے زیادہ تاخیر کی اور مغرب کی نماز شفق (سرخی) کے غروب ہونے سے پہلے پڑھی اور عشاء کی نماز تہائی رات گزرنے کے بعد پڑھی اور فجر کی نماز روشنی پھیلنے پر پڑھی، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟‘‘ تو اس آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میں حاضر ہوں، آپﷺ نے فرمایا: تمہاری نمازوں کا وقت اس کے درمیان ہے جو تم نے دیکھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) أَبْرَدَ: ٹھنڈے وقت میں داخل کیا۔ (2) أَنْعَمَ أَن يُبْرٍدَ: اس کو خوب ٹھنڈا کیا۔
فوائد ومسائل
سائل کو نماز کے اوقات کی ابتدا اور انتہا اول و آخر سمجھانے کے لیے آپﷺ نے زبانی تعلیم و تفہیم کے بجائے عمل کر کے دکھایا اس لیے آپﷺ نے اسے فرمایا: آج اور کل دو دن ہمارے ساتھ پانچوں نمازوں میں شریک ہو پھر آپﷺ نے پہلے دن ہر نماز اول وقت میں ادا فرمائی اور دوسرے دن جائز حد تک مؤخر کیا اور اس کے بعد اسے فرمایا نمازوں کو ان اوقات کے اندر پڑھو جن میں تم نے ہمیں نماز پڑھتے دیکھا ہے اور دوسرے دن بھی آپﷺ نے نماز وقت مستحب پر پڑھی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sulaiman bin Buraida narrated it on the authority of his father that a person asked the Apostle of Allah (ﷺ) about the time of prayer. Upon this he said: Pray with us these two, meaning two days. When the sun passed the meridian. he gave command to Bilal (RA) who uttered the call to prayer. Then he commanded him and pronounced Iqama for noon prayer. (Then at the time of the afternoon prayer) he again commanded and Iqama for the afternoon prayer was pronounced when the sun was high, white and clear. He then commanded and Iqama for the evening prayer was pronounced, when the sun had set. He then commanded him and when he hears the Iqamah for the night prayer was pronounced When the twilight had disappeared. He then commanded him and when he hears the Iqamah for the morning prayer was pronounced, when the dawn had appeared. When it was the next day, he commanded him to delay the noon prayer till the extreme heat had passed and he did so, and he allowed it to be delayed till the extreme heat had passed. He observed the afternoon prayer when the sun was high, delaying it beyond the time he had previously observed it. He observed the evening prayer before the twilight had vanished; he observed the night prayer when a third of the night had passed; and he observed the dawn prayer when there was clear daylight. He (the Holy Prophet) then said: Where is the man who inquired about the time of prayer? He (the inquirer) said: Messenger of Allah (ﷺ) I here I am. He (the Holy Prophet) said: The time for your prayer is within the limits of what you have seen.