Muslim:
The Book of Prayer - Friday
(Chapter: Keeping the prayer and khutbah short)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
869.
ابو وائل نے کہا: ہمارے سامنے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ دیا۔ انتہائی مختصر اورانتہائی بلیغ (بات کی) جب وہ منبر سے اترے تو ہم نے کہا: ابویقظان! آپﷺ نے انتہائی پر تاثیر اور انتہائی مختصر خطبہ دیا ہے، کاش! آپ سانس کچھ لمبی کر لیتے (زیادہ دیر بات کرلیتے) انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’انسان کی نماز کا طویل ہونا اوراس کے خطبے کا چھوٹا ہونا اس کی سمجھداری کی علامت ہے، اس لئے نماز لمبی کرو اور خطبہ چھوٹا دو، اوراس میں کوئی شبہ نہیں کہ کوئی بیان جادو(کی طرح) ہوتا ہے۔‘‘
یہ کتاب بھی کتاب الصلاۃ ہی کا تسلسل ہے۔ ہفتے میں ایک خاص دن کا بڑا اجتماع،نماز اور خطبہ ،جمعہ کہلاتا ہے ۔اس خصوصیت نماز کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو خاص دن مقرر فرمایا اس کی اہمیت کے بہت سے پہلو ہیں یہ انسانیت کےآغازسے لے کر انجام تک کے اہم واقعات کادن ہے ۔اللہ نے اسے باقی دنوں پر فضیلت دی اوراس میں ایک گھڑی ایسی رکھ دی جس میں کی گئی دعا کی قبولیت کاوعدہ کیاگیا ہے۔یہ ہفتہ وار اجتماعی تعلیم اور تذکیر کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتاہے۔
امام مسلمؒ نے اس اجتماع میں حاضری کے خصوصی آداب ،صفائی،ستھرائی اور خوشبو کے استعمال سے کتاب کا آغازکیا ہے۔پھر توجہ سے خطبہ سننے کے بارے میں احادیث لائے ہیں۔اس اہم دن کی نماز اور خطبے کےلئے جلدی آنے،اس کی ادائیگی کابہترین وقت،دو خطبوں اور نماز کی ترتیب،دنیا کے کام چھوڑ کر اس میں حاضر ہونے،اس کے ساتھ امام کی طرف سے بھی اختصار ملحوظ رکھنے اور واضح اور عمدہ خطبہ دینے کی تلقین پر احادیث پیش کیں۔اس کے بعد احادیث کے ذریعے سے جمعہ کی نماز کا طریقہ واضح کیاگیا ہے،اسی کتاب میں جمعہ کی نماز فجر میں قراءت ،تحیۃ المسجد اورجمعہ کے بعد کی نماز کا بیان بھی آگیا ہے۔جمعہ کے حوالے سے یہ ایک جامع کتاب ہے۔اس میں درج احادیث مبارکہ سے اس کی اہمیت وفضیلت بھی ذہن نشین ہوتی ہے اور اس کی روحانی لذتوں کا لطف بھی دوبالا ہوجاتاہے۔
ابو وائل نے کہا: ہمارے سامنے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ دیا۔ انتہائی مختصر اورانتہائی بلیغ (بات کی) جب وہ منبر سے اترے تو ہم نے کہا: ابویقظان! آپﷺ نے انتہائی پر تاثیر اور انتہائی مختصر خطبہ دیا ہے، کاش! آپ سانس کچھ لمبی کر لیتے (زیادہ دیر بات کرلیتے) انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’انسان کی نماز کا طویل ہونا اوراس کے خطبے کا چھوٹا ہونا اس کی سمجھداری کی علامت ہے، اس لئے نماز لمبی کرو اور خطبہ چھوٹا دو، اوراس میں کوئی شبہ نہیں کہ کوئی بیان جادو(کی طرح) ہوتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابووائل بیان کرتے ہیں کہ ہمارے سامنے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ دیا۔ انتہائی مختصر اورانتہائی بلیغ (مؤثر) تو جب وہ منبر سے اترے ہم نے کہا: اے ابویقظان! آپ نے انتہائی بلیغ (پر تأثیر) اور انتہائی مختصر خطبہ دیا ہے، اے کاش! آپ کچھ لمبا خطبہ دیتے، انھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’انسان کی نماز کی طوالت اور اس کے خطبہ کا چھوٹا ہونا اس کی فقاہت (سوجھ بوجھ) کی علامت ہے۔ اس لئے نماز کو طویل کرو اور خطبہ چھوٹا دو، اور بلاشبہ بعض بیان جادو کی تأثیر رکھتے ہیں‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) تنفست: آپ سانس لیتے، یعنی خطبہ کچھ لمبا کرتے تو یہ بہتر ہوتا۔ (2) مئنة:میم پر زبر ہے اور ہمزہ پر زیر ہے اور نون مشدد ہے۔ علامت، جس سے کسی چیز کی پہچان اور شناخت ہوتی ہے۔ (3) إِنَّ مِنَ الْبَيَان سحرًا: بعض بیان جادو اثر ہوتے ہیں، یعنی جس طرح جادو فوری طور پر اثر کرتا ہے اسی طرح بعض بیان اس قدر بلیغ اور مؤثر ہوتے ہیں کہ سامع ان کا فوری اثر قبول کرتا ہے اور اس کا دل خطیب کی گرفت میں ہوتا ہے وہ جدھر چاہے اسے مائل کر دے۔ اس خطیب نے یہ کام احقاق حق اور ابطال باطل کے لیے کیا تو قابل تعریف ہے اور اگر حق کے خلاف باطل کی تائید میں کیا ہے تو قابل مذمت ہے۔ بہرحال وہ جادو کی طرح مؤثر ہر صورت میں ہے۔
فوائد ومسائل
1۔ طوالت نماز۔ نماز کا تعلق اپنے خالق اور مالک سے ہے جو اس کی یاد اور اس سے راز ونیاز پر مشتمل ہے۔اس لیے اس میں ہرانسان فرداً فرداً حصہ لیتا ہے۔ اور اس میں ہر ایک دلچسپی کا سامان ہے۔اس لیے اس میں طمانیت اور تسکین واعتدال کی ضرورت ہے اور نماز میں طوالت کی ضرورت ہے۔ لیکن اس قدر نہیں کہ مقتدیوں کے لیے مشقت اورکلفت کا باعث بنے۔ 2۔ خطبہ میں اختصار۔ خطبہ کا تعلق لوگوں سے ہے، خطیب ان کو مخاطب کرتا ہے۔ ہرانسان کا اس میں دخل نہیں ہے۔ اور خطیب کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ اس کی بات جامع، مؤثر اور مختصر ہو۔ اس میں طول بیانی سے کام نہ لیا گیا ہو۔ لیکن اصل وضع کے اعتبار سے چونکہ خطیب اس میں اپنی ٹھلانت لسانی اور زور بیان کا اظہار کرتا ہے اس لیے یہ طویل اور لمبا ہوتا ہے۔ اس لیے جمعہ کا خطبہ عام خطبوں سے مختصر رکھا گیا ہے۔ کیونکہ اس کے کچھ مخصوص آداب اور احکام ہیں جن کی پابندی عام خطبوں میں نہیں ہے۔ اس لیے یہ ان کے مقابلہ میں مختصر ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کے لیے اس کے پورے آداب اور احکام کا ملحوظ رکھنا اور انتہائی توجہ اور غورسے سننا ممکن ہو سکے۔ طول بیانی میں انہماک اور توجہ کا برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی آداب واحکام کی پابندی آسان ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Wa'il reported: 'Ammar delivered to us the sermon. It was short and eloquent. When he ('Ammar) descended (from the pulpit) we said to him: O Abdul Yaqzn, you have delivered a short and eloquent sermon. Would that you had lengthened (the sermon). He said: I have heard the Messenger of Allah (ﷺ) as saying: The lengthening of prayer by a man and the shortness of the sermon is the sign of his understanding (of faith). So lengthen the prayer and shorten the sermon, for there is charm (in precise) expression.