تشریح:
(1) دور جاہلیت میں لوگ غیر اللہ کی طرف قدرتی کاموں کی نسبت کرتے تھے، بالخصوص بارش کے متعلق ان کا یہ عقیدہ تھا کہ کچھ مخصوص ستاروں کی وجہ سے بارش برستی ہے اور یہی ستارے ان کے رزق کا باعث ہیں۔ اس عقیدے میں صراحت کے ساتھ الوہیت باری تعالیٰ کی تکذیب ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی طرف اس بارش کی نسبت سے منع کر دیا اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کا حکم دیا۔ اس بنا پر ستاروں کو بارش میں مؤثر حقیقی ماننا کفر ہے۔ اگر انہیں محض علامات ٹھہرایا جائے۔ جیسا کہ ٹھنڈی ہوا یا بادلوں کو علامت قرار دیا جاتا ہے تو اسے کفر سے تعبیر کرنا صحیح نہیں۔ حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے متعلقہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم اپنے رزق کا شکر یوں ادا کرتے ہو کہ اللہ کو جھٹلاتے ہو اور کہتے ہو کہ فلاں پخھتر (چاند کی منزل) اور فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:3296)
(2) واضح رہے کہ اس موقع پر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ملعون نے کہا تھا کہ شعریٰ ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسی وقت اس کی تردید کو مناسب خیال کیا۔ (فتح الباري:678/2)