تشریح:
(1) امام مسلم ؒ نے یہ اضافہ بیان فرمایا ہے کہ اس قدر رش وقت نماز کے علاوہ ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1296(575))
(2) حضرت ابن عمر ؓ نے وضاحت نہیں فرمائی کہ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے۔ اس بنا پر علمائے امت میں اختلاف ہوا۔ امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ اگر ہجوم کی وجہ سے زمین پر پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ مل سکے تو لوگوں کی پشت پر سجدہ کر لینا جائز ہے جبکہ امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں انتظار کرنا چاہیے، جب لوگ سجدے سے اپنا سر اٹھائیں تو دوسرے سجدہ کر لیں لیکن طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ جب لوگوں کو رش کی وجہ سے جگہ نہ ملتی تو دوسروں کی پشت پر سجدہ کر لیتے۔ اس سے امام بخاری ؒ کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ آدمی کو اپنی استطاعت کے مطابق سجدہ کرنا چاہیے اگرچہ اپنے بھائی کی پشت ہی پر کرنا پڑے۔ (فتح الباري:723/2) اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات میں سجدۂ تلاوت کی ادائیگی فوراً ضروری نہیں، اسے بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
(4) رسول اللہ ﷺ نماز میں جھکتے اور اٹھتے وقت اللہ أکبر کہتے تھے، اس لیے سجدۂ تلاوت کے لیے جھکتے وقت بھی اللہ أکبر کہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں۔ اسی طرح سجدۂ تلاوت کے لیے کھڑے ہو کر ہاتھ باندھنا اور سجدۂ تلاوت سے فراغت کے بعد سلام پھیرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔
(5) سجدۂ تلاوت میں یہ دعا پڑھنی چاہیے: (اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ) (جامع الترمذي، الجمعة، حدیث:579) اگر یہ دعا یاد نہ ہو تو درج ذیل دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے: (سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ فتباركَ اللهُ أَحسَنُ الخالِقِينَ) (سنن أبي داود، سجود القرآن، حدیث:1414) "فتباركَ اللهُ أَحسَنُ الخالِقِينَ" کے الفاظ مستدرک حاکم میں ہیں۔ (المستدرك للحاکم:220/1)