تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ایک روایت میں صراحت کی ہے کہ یہ مکہ مکرمہ کا سفر تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4298) ابوداود میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سترہ دن پڑاؤ کیا تھا۔ ایک روایت میں اٹھارہ راتوں کا ذکر ہے، جبکہ ایک دوسری میں پندرہ دن بیان ہوئے ہیں۔ ان مختلف روایات کے درمیان امام بیہقی ؒ نے بایں الفاظ تطبیق دی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے اور یہاں سے نکلنے کے دن کو شامل کر کے انیس دن کہا گیا ہے اور آنے جانے کے دن نکال کر سترہ دن رہ جاتے ہیں۔ اٹھارہ دنوں کے مطابق صرف آنے یا صرف جانے کے دن کو اس مدت میں شامل کیا گیا ہے، البتہ پندرہ دن کی اقامت کو امام نووی ؒ نے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس کے راوی ثقہ ہیں، لہذا اسے ضعیف قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ ممکن ہے راوی نے سترہ دنوں والی روایت کو اصل قرار دے کر اس سے آمد اور روانگی کے دن کو خارج کر دیا ہو۔ بہرحال انیس دن کی روایت راجح ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:725/2)
(2) رسول اللہ ﷺ کے سفر چار نوعیت کے ہیں: ٭ سفر ہجرت۔ ٭ سفر جہاد۔ ٭ سفر عمرہ۔ ٭ سفر حج۔ آپ کے اکثر و بیشتر سفر جہاد کے متعلق ہیں۔ اس قسم کے سفر میں جنگی حالات کی بنا پر کسی جگہ بھی عزم کے ساتھ پڑاؤ نہیں ہوتا تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر اگر چھ ماہ یا سال بھی کسی جگہ پڑاؤ کرنا پڑے تو بھی قصر کی اجازت ہے، جیسا کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے مقام تبوک پر بیس دن پڑاؤ کیا تھا اور وہاں قصر ہی کرتے رہے تھے۔ (مسند أحمد:295/3) لیکن حضرت ابن عباس ؓ نے فتح مکہ کے دوران ہنگامی طور پر انیس دن کے پڑاؤ سے یہ استنباط کیا ہے کہ ہم اگر کسی مقام پر دوران سفر انیس روز ٹھہریں تو قصر کریں گے بصورت دیگر پوری نماز پڑھیں گے۔ ہمارے نزدیک ایسے ہنگامی حالات میں نماز قصر کے لیے اقامت کی کوئی حد نہیں۔ ایسے حالات میں جتنے دن بھی قیام ہو نماز قصر ہی پڑھنی ہو گی، جیسا کہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوتا ہے۔
(3) حضرت انس ؓ نے شام کے علاقے میں دو سال تک پڑاؤ کیا، اس دوران آپ نماز قصر پڑھتے رہے۔ (المصنف لعبد الرزاق، حدیث:4354)
(4) حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: "را مهرمز" میں صحابۂ کرام ؓ نے سات ماہ تک پڑاؤ کیا، اس دوران وہ نماز قصر پڑھتے رہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:152/3)
(5) حضرت نافع کہتے ہیں: برف باری کی بنا پر حضرت ابن عمر ؓ نے آذربائیجان میں چھ ماہ تک پڑاؤ کیا، اس دوران آپ قصر پڑھتے رہے۔ (المصنف لعبدالرزاق، حدیث:4339)
(6) عبدالرحمٰن بن مسور کہتے ہیں: ہم نے ملک شام کی کسی بستی میں حضرت سعد ؓ کے ہمراہ چالیس رات تک پڑاؤ کیا۔ اس دوران ہم تو پوری نماز پڑھتے تھے، البتہ حضرت سعد ؓ نماز قصر ادا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی فتح مکہ کے وقت مکہ مکرمہ میں انیس دن کی اقامت بھی ایسے ہنگامی حالات کے پیش نظر تھی، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس دوران انیس دن ٹھہرنے کی پہلے ہی دن نیت نہیں کی تھی بلکہ آپ روانگی کے متعلق متردد تھے کہ کب مطلوبہ کام سے فارغ ہوں تو کوچ کریں۔ (فتح الباري:726/2) فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں سترہ رمضان بروز منگل علی الصبح داخل ہوئے اور چھ شوال بروز ہفتہ حنین کی طرف کوچ فرمایا۔ اس اقامت سے قصر نماز کی مدت کا تعین کرنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ سفر ہنگامی حالات کے پیش نظر تھا۔ محارب کو ہر لمحہ ایسے مواقع پیش آ سکتے ہیں کہ اسے آگے بڑھنا ہے یا پیچھے ہٹنا ہے۔ یہ صورت حال بذات خود رسول اللہ ﷺ کو بھی درپیش تھی۔ فتح مکہ کے فوراً بعد آپ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کی سربراہی میں ایک چھوٹا سا دستہ عزی (بت کا نام) کے انہدام کے لیے روانہ فرمایا، پھر عمرو بن عاص ؓ کی قیادت میں ایک دوسرا سریہ (چھوٹا لشکر) سواع بت کو گرانے کے لیے بھیجنا پڑا۔ اسی طرح سعد بن زید ؓ کے زیر امارت تیسرا دستہ مناۃ بت کو ختم کرنے کے لیے بھیجا۔ اس کے بعد آپ کو اطلاع ملی کہ ثقیف اور ہوازن مقابلے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں تو آپ نے خود آگے بڑھ کر وادئ حنین میں ان کا مقابلہ کیا۔ غزوۂ حنین اسی مقام پر ہوا تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مجاہد اگر فتح کے بعد بھی کسی مقام پر اقامت کا ارادہ کرے تو اس کے ارادے کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اس کی کیفیت اس مسافر کی ہے جو اس تذبذب میں مبتلا ہو کہ آج واپسی ہو گی یا کل چلیں گے، ایسے حالات میں وہ مسافر نماز قصر ہی ادا کرتا رہے گا، خواہ اس کا پڑاؤ سالوں اور مہینوں پر محیط ہو، جیسا کہ درج بالا واقعات سے ظاہر ہے، لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فتح مکہ اور غزوۂ تبوک کے موقع پر نماز قصر پڑھنا اس کی مدت کے تعین کی دلیل نہیں بن سکتا۔ واللہ أعلم۔