Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: Whose Islam is the best (Who is the best Muslim)?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
11.
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! کون سا (صاحب) اسلام افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ ’’اَيُّ‘‘ کا مضاف الیہ وہ چیز ہوتی ہے جس میں تعدد ہولیکن اسلام مفرد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں حذف مضاف ہے۔ اصل عبارت کو ہم نے ترجمہ کرتے وقت ظاہر کردیا ہے۔یعنی(اَيُّ صَاحِبِ الاِسلَامِ اَفضَلُ) گویا سوال ذات سے متعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جواب بھی ذات سے دیا جا رہا ہے۔ اس كی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’کون سامسلمان افضل ہے۔‘‘ ( صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 163(42)) ایسا کرنے سے سوال وجواب میں مطابقت ہوجاتی ہے۔ 2۔ صحیح مسلم کی اسی روایت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے والے خود راوی حدیث حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کا سوال حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمیر بن قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کیا تھا۔ ان روایات میں تضاد نہیں ہے کیونکہ کبھی انھوں نے نام کی صراحت کردی اور کبھی اس سوال کو دوسرے لوگوں کی طرف منسوب کیا کیونکہ وہ اس سوال سے متفق تھے اورکسی سے متفق ہونا گویا خود اس کا سوال کرنا ہے۔ (فتح الباري: 77/1) 3۔ اس روایت سے پہلی حدیث کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ حصر باعتبار حقیقت کے ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ حصر باعتبار حقیقت کے نہیں بلکہ کمال کے لحاظ سے ہے، یعنی مسلمانوں کے مراتب میں فرق ہے کچھ اکمل ہیں اور کچھ کامل ہیں، یعنی وہ مسلمان جو دیگراسلامی شعائر کے ساتھ روایت میں ذکرکردہ وصف کا بھی حامل ہو، وہ افضل اوراکمل ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
11
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
11
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
11
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
11
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اسلام اور ایمان ایک ہی چیز کے دونام ہیں۔جب اسلام میں درجات کا تفاوت ثابت ہوگاتو ایمان میں بھی ان درجات کا ثبوت ہوجائے گا جو اس کے کم وبیش ہونے پر واضح دلیل ہے،نیز اس میں مرجیہ کی بھی تردید مقصود ہے کہ ایمان میں اعمال کی تاثیر ثابت ہورہی ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! کون سا (صاحب) اسلام افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ ’’اَيُّ‘‘ کا مضاف الیہ وہ چیز ہوتی ہے جس میں تعدد ہولیکن اسلام مفرد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں حذف مضاف ہے۔ اصل عبارت کو ہم نے ترجمہ کرتے وقت ظاہر کردیا ہے۔یعنی(اَيُّ صَاحِبِ الاِسلَامِ اَفضَلُ) گویا سوال ذات سے متعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جواب بھی ذات سے دیا جا رہا ہے۔ اس كی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’کون سامسلمان افضل ہے۔‘‘ ( صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 163(42)) ایسا کرنے سے سوال وجواب میں مطابقت ہوجاتی ہے۔ 2۔ صحیح مسلم کی اسی روایت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے والے خود راوی حدیث حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کا سوال حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمیر بن قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کیا تھا۔ ان روایات میں تضاد نہیں ہے کیونکہ کبھی انھوں نے نام کی صراحت کردی اور کبھی اس سوال کو دوسرے لوگوں کی طرف منسوب کیا کیونکہ وہ اس سوال سے متفق تھے اورکسی سے متفق ہونا گویا خود اس کا سوال کرنا ہے۔ (فتح الباري: 77/1) 3۔ اس روایت سے پہلی حدیث کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ حصر باعتبار حقیقت کے ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ حصر باعتبار حقیقت کے نہیں بلکہ کمال کے لحاظ سے ہے، یعنی مسلمانوں کے مراتب میں فرق ہے کچھ اکمل ہیں اور کچھ کامل ہیں، یعنی وہ مسلمان جو دیگراسلامی شعائر کے ساتھ روایت میں ذکرکردہ وصف کا بھی حامل ہو، وہ افضل اوراکمل ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم کو سعید بن یحییٰ بن سعید اموی قریشی نے یہ حدیث سنائی، انھوں نے اس حدیث کو اپنے والد سے نقل کیا، انھوں نے ابوبردہ بن عبداللہ بن ابی بردہ سے، انھوں نے ابی بردہ سے، انھوں نے ابوموسی ؓ سے، وہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’وہ جس کے ماننے والے مسلمانوں کی زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان سلامتی میں رہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
چونکہ حقیقت کے لحاظ سے ایمان اور اسلام ایک ہی ہیں، اس لیے أَيُّ الإِسْلاَمِ أَفْضَلُ کے سوال سے معلوم ہوا کہ ایمان کم وبیش ہوتا ہے۔ افضل کے مقابلہ پر ادنیٰ ہے۔ پس اسلام ایمان، اعمال صالحہ واخلاق پاکیزہ کے لحاظ سے کم وزیادہ ہوتا رہتا ہے۔ یہی حضرت امام کا یہاں مقصد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA): The Prophet (ﷺ) said, "A Muslim is the one who avoids harming Muslims with his tongue and hands. And a Muhajir (emigrant) is the one who gives up (abandons) all what Allah has forbidden".