تشریح:
1۔ ’’اَيُّ‘‘ کا مضاف الیہ وہ چیز ہوتی ہے جس میں تعدد ہولیکن اسلام مفرد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں حذف مضاف ہے۔ اصل عبارت کو ہم نے ترجمہ کرتے وقت ظاہر کردیا ہے۔یعنی(اَيُّ صَاحِبِ الاِسلَامِ اَفضَلُ) گویا سوال ذات سے متعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جواب بھی ذات سے دیا جا رہا ہے۔ اس كی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’کون سامسلمان افضل ہے۔‘‘ ( صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 163(42)) ایسا کرنے سے سوال وجواب میں مطابقت ہوجاتی ہے۔
2۔ صحیح مسلم کی اسی روایت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے والے خود راوی حدیث حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کا سوال حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمیر بن قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کیا تھا۔ ان روایات میں تضاد نہیں ہے کیونکہ کبھی انھوں نے نام کی صراحت کردی اور کبھی اس سوال کو دوسرے لوگوں کی طرف منسوب کیا کیونکہ وہ اس سوال سے متفق تھے اورکسی سے متفق ہونا گویا خود اس کا سوال کرنا ہے۔ (فتح الباري: 77/1)
3۔ اس روایت سے پہلی حدیث کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ حصر باعتبار حقیقت کے ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ حصر باعتبار حقیقت کے نہیں بلکہ کمال کے لحاظ سے ہے، یعنی مسلمانوں کے مراتب میں فرق ہے کچھ اکمل ہیں اور کچھ کامل ہیں، یعنی وہ مسلمان جو دیگراسلامی شعائر کے ساتھ روایت میں ذکرکردہ وصف کا بھی حامل ہو، وہ افضل اوراکمل ہے۔ واللہ أعلم۔