تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے واضح کیا ہے کہ دوران سفر فرض نماز کے بعد سنن راتبہ کے سوا دیگر نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (2) احادیث پیش کرنے سے مقصود اس قسم کے نوافل کی مختلف انواع بیان کرنا ہے، چنانچہ پہلی معلق روایت میں نماز سے پہلے سنت فجر پڑھنا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری حدیث میں ان نوافل کا بیان ہے جن کی ادائیگی کے لیے مخصوص وقت ہے جیسا کہ صلاۃ ضحیٰ۔ تیسری حدیث میں نماز تہجد اور چوتھی میں مطلق نوافل کا بیان ہے۔ آخری حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے عمل کے بعد حضرت ابن عمر ؓ کا معمول بیان کیا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ دوران سفر میں نوافل پڑھنے مشروع ہیں ان کا نسخ یا معارض ثابت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ (فتح الباري:738/2) (3) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا عمل متصل سند کے ساتھ امام بخاری ؒ نے پہلے بیان کیا ہے کہ آپ دوران سفر میں اپنی سواری پر نماز تہجد پڑھتے تھے۔ سواری کا جس طرف بھی منہ ہو جاتا اس کی پروا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1098)