تشریح:
(1) بعض حضرات کا موقف ہے کہ اگر نمازی باہر سے کسی کی اصلاح قبول کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے کیونکہ تعلیم و تعلم کا سلسلہ دوران نماز میں صحیح نہیں بلکہ صحت نماز کے منافی ہے۔ امام بخاری ؒ اس کی تردید فرماتے ہیں کہ اگر نمازی مصلحت نماز کے لیے باہر سے اصلاح قبول کرتا ہے تو جائز ہے، چنانچہ حدیث مذکور میں عورتوں سے خطاب ہے کہ مردوں کے سیدھا ہو کر بیٹھنے سے پہلے پہلے تم نے سجدے سے اپنے سروں کو نہیں اٹھانا۔
(2) امام بخاری ؒ اپنی صحیح بخاری میں احادیث کے اطلاق و عموم سے مسائل کا استنباط فرماتے ہیں۔ اس مقام پر بھی انہوں نے حدیث کے عموم و اطلاق سے مسئلہ ثابت کیا ہے کیونکہ حدیث میں یہ وضاحت نہیں کہ مذکورہ خطاب دوران نماز میں تھا یا نماز شروع کرنے سے پہلے۔ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے: اگرچہ حدیث میں اس کی صراحت نہیں تاہم کلام کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو دوران نماز میں یہ حکم دیا گیا تھا جبکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کر رہی تھیں، کیونکہ اس میں حرف "فا" استعمال ہوا ہے جو تعقیب کے لیے ہے۔ اس کا تقاضا یہی ہے کہ عورتوں کو دوران نماز یہ حکم دیا گیا تھا۔ (عمدةالقاري:621/5) اگر یہ خطاب نماز سے پہلے بھی ہو تو کم از کم اس حکم کی تعمیل میں عورتوں کے لیے دوران نماز انتظار کرنا تو ثابت ہو گا۔ اگر دورانِ نماز میں ہے تو وہ انتظار کریں گی۔ اور مردوں کے بعد سر اٹھائیں گی۔ اس سے مردوں کے لیے تقدم اور عورتوں کے لیے انتظار، یعنی تاخر ثابت ہوا۔ واللہ أعلم۔