قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجَنَائِزِ (بَابُ فِي الجَنَائِزِ، وَمَنْ كَانَ آخِرُ كَلاَمِهِ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وقيل لوهب بن منبه اليس لا إله إلا الله مفتاح الجنة قال بلى ولكن ليس مفتاح إلا له اسنان فإن جئت بمفتاح له اسنان فتح لك وإلا لم يفتح لك

1237. حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الْأَحْدَبُ عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي فَأَخْبَرَنِي أَوْ قَالَ بَشَّرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور وہب بن منبہ  سے کہا گیا کہ کیا «لا إله إلا الله» جنت کی کنجی نہیں ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ضرور ہے لیکن کوئی کنجی ایسی نہیں ہوتی جس میں دندانے نہ ہوں۔ اس لیے اگر تم دندانے والی کنجی لاؤ گے تو تالا (قفل) کھلے گا ورنہ نہیں کھلے گا۔باب ماجاء حدیث باب کی شرح اور تفسیر ہے۔ یعنی حدیث باب میں جو آیا ہے کہ میری امت میں سے جو شخص توحید پر مرے گا وہ بہشت میں داخل ہو گا ۔ اگر چہ اس نے زنا چوری وغیرہ بھی کی ہو۔اس سے یہ مراد ہے کہ اس کا آخری کلام جس پر اس کا خاتمہ ہو لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو۔ یعنی اس کو جنت دخول تب ہی گا کہ وہ خدا کے ساتھ شریک نہ بناتا ہو اور اس کی موت کلمے پر ہو لا الٰہ الا اللہ نام ہے سارے کلمے کا جس طرح قل ہو اللہ نام ہے ساری سورۃ کا ۔ کہتے ہیں کہ میں نے قل ہو اللہ پڑھی اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ سورت پڑھی جس کے اول میں قل ہواللہ کے الفاظ ہیں للعامتہ الغزنوی۔اس کی وضاحت حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مدظلہ العالی یوں فرماتے ہیں والتلقين ان يذكره عنده ويقوله بحضرته ويتلفظ به عنده يسمع ليتفطن فيقوله لا ان يامره به ويقول لا اله الا الله ايكون كافرا فيقول له قل كما قال رسول الله ﷺ لعمه ابى طالب وللغلام اليهودى- (مرعاة،ج :2/ص:447)یعنی تلقین کا مطلب یہ کہ اس کے سامنے اس کے لفظ ادا کرے تاکہ وہ خود ہی سمجھ کر اپنی زبان سے یہ کہنے لگ جائے۔اسے حکم نہ کرے بلکہ اس کے سامنے لا الہ الا اللہ کہتا رہے اور اگر یہ تلقین کسی کافر کو کرنی ہے تو اس طرح تلقین کرے جس طرح آنحضرت ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب اور ایک یہودی لڑکے کو تلقین کی تھی یعنی توحید رسالت ہر دور کے اقرار کے لئے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ساتھ تلقین کرے مسلمان کے لئے تلقین میں صرف لا الہ الا اللہ ہی کافی ہے اس لئے کہ وہ مسلمان ہے اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت پر اس کا ایمان ہے لہذا تلقین میں صرف کلمہ توحید ہی اس لئے منقول ہے ۔ ونقل جماعۃ من الاصحاب انہ یضیف الیھا محمد رسول اللہ (مرعاۃ حوالہ مذکور) یعنی بعض اصحا ب سے یہ بھی منقول ہے کہ محمد رسول اللہ کا بھی اضافہ کیا جائے مگر جمہور سے صرف لا الہ الا اللہ ہی کے اوپر اقتصار کرنا منقول ہے ۔ مگر یہ حقیقت پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ کلمہ طیبہ توحید و رسالت کے ہر دو اجزاء یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہی کا نام ہے اگر کوئی شخص صرف پہلا جزو تسلیم کرے اور دوسرے جز سے انکار کرے تو وہ بھی عند اللہ کافر مطلق ہی ہے۔

1237.

حضرت ابو ذر ؓ  سے روایت ہے،انھوں نےکہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میرے رب کی طرف سے میرے پاس ایک آنے والا آیا اور مجھے خوشخبری دی کہ میری اُمت میں سے جو شخص بایں حالت فوت ہوکہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرتا ہوتو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ میں نےعرض کیا:اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟آپ ﷺ نے فرمایا:’’ہاں اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔‘‘