تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام علاء ؓ کی شہادت سن کر فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے اللہ کا رسول ہونے کے باوجود اپنے اور تمہارے بارے میں کوئی معلومات نہیں کہ قیامت کے دن ہم سے کیا برتاؤ کیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی بعینہ ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ ﴾(الأحقاف: 9:46) ’’آپ کہہ دیجیے کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور میں یہ نہیں جانتا کہ مجھ سے کیا سلوک کیا جائے گا اور تم سے کیا برتاؤ ہو گا۔‘‘ رسول اللہ ﷺ کا اپنے متعلق لاعلمی کا اظہار اللہ تعالیٰ کے درج ذیل ارشاد سے پہلے کا ہے: ﴿إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا ﴿١﴾ لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّـهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا ﴿٢﴾ (الفتح : 48) ’’اے نبی! ہم نے آپ کو واضح فتح عطا کر دی تاکہ اللہ آپ کی اگلی اور پچھلی سب لغزشیں صاف کر دے اور آپ پر اپنی نعمت پوری کر دے اور آپ کو صراط مستقیم پر چلائے۔‘‘ کیونکہ جن آیات میں لاعلمی کا اظہار ہے وہ مکی سورت میں ہے اور جہاں آپ کا مذکورہ اعزاز بیان ہوا ہے، وہ مدنی سورت میں ہے، (فتح الباري:149/3) نیز اپنے متعلق آپ نے واضح طور پر فرمایا: ’’جنت میں سب سے پہلے میں داخل ہوں گا۔‘‘ (مسند أحمد: 144/3، و السلسلة الأحادیث الصحیحة، تحت حدیث:1571)
(2) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے، ام علاء ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کے متعلق تبصرہ فرمایا تو مجھے بہت پریشانی لاحق ہوئی۔ میں نے خواب میں حضرت عثمان ؓ کے لیے ایک بہتا ہوا چشمہ دیکھا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ اس کا عمل ہے (جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری و ساری ہے)۔‘‘ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2687)
(3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قطعی طور پر کسی کو جنتی نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ حصول جنت کے لیے خلوص نیت شرط ہے جس پر اللہ کے سوا اور کوئی مطلع نہیں ہو سکتا، البتہ جن حضرات کے متعلق نص قطعی ہے، مثلا: عشرہ مبشرہ وغیرہ تو انہیں جنتی کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ والله أعلم۔
(4) نافع بن یزید کی روایت کو اسماعیلی نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ شعیب کی متابعت کو امام بخارى ؒ نے خود متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’اللہ کی قسم! مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2687) عمرو بن دینار کی متابعت کو ابو عمر نے اپنی مسند میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 149/3) معمر کی متابعت کو بھی امام بخاری نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 7003)