تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں لفظ ’’فضیلت‘‘ کو اختیار کیا ہے تاکہ اس سلسلے میں مختلف احادیث میں تطبیق دی جائے، چنانچہ ایک حدیث میں نابالغ بچوں کے مرنے پر دخول جنت کی بشارت ہے، دوسری میں جہنم سے حجاب بننے کا ذکر ہے اور تیسری میں صرف قسم کو پورا کرنے کے لیے دوزخ پر وارد ہونے کا بیان ہے۔ مذکورہ احادیث میں فضیلت ہی کا ثبوت ملتا ہے، کیونکہ دخول جنت تو دوزخ میں جانے اور پھر اس سے نکلنے کے بعد بھی ہو سکتا ہے، اس لیے دوسری حدیث سے پتہ چلا کہ دخول جنت، دوزخ میں داخل ہوئے بغیر ہو گا۔ تیسری حدیث کے مطابق جہنم پر ورود صرف قسم کو پورا کرنے کے لیے کارروائی کے طور پر ہو گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ﴿٧١﴾) (مریم: 71/19) ’’تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا جہنم پر گزر نہ ہو۔ یہ ایک طے شدہ بات ہے جو تیرے رب کے ذمہ ہے۔‘‘ جہنم کے اوپر سے گزرنے والے کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اس کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور ایسے وہ لوگ ہوں گے جن کے لیے اللہ کی طرف سے پہلے ہی بھلائی مقدر ہو چکی ہے۔
(2) والدین کے لیے یہ بہت بڑی بشارت ہے۔ اگرچہ احادیث میں یہ خوشخبری دو یا تین بچوں کے فوت ہونے پر ہے، لیکن امام بخاری ؒ کے عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بشارت ایک بچے کے فوت ہونے پر بھی ہے، بلکہ ناتمام مولود پر بھی یہ فضیلت حاصل ہو گی، لیکن اس فضیلت کے حصول کے لیے شرط یہ ہے کہ اس قسم کے صدمے کی چوٹ لگتے ہی صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’جب میں دنیا میں کسی بندے کی پسندیدہ چیز کو لے لیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے اور مجھ سے اجر کی امید رکھتا ہے تو اسے ضرور جنت میں داخلہ ملے گا۔‘‘(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6424)
(3) احادیث میں صراحت ہے کہ مرنے والے بچے نابالغ ہوں، کیونکہ وہ معصوم ہوں گے جن کی سفارش قبول کی جائے گی۔ ورنہ صدمے کے اعتبار سے بڑی عمر کے بچوں کی وفات کا صدمہ زیادہ ہوتا ہے۔ والله أعلم۔