باب: آدمی اپنی ذات سے موت کی خبر میت کے وارثوں کو سنا سکتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: A man who informs the relatives of the deceased person (of his death) by himself)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1258.
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت نجاشی کے فوت ہونے کی خبر سنائی جس دن وہ فوت ہوئے تھے۔ پھر آپ عید گاہ تشریف لے گئے،صفیں درست کرنے کے بعد چار تکبیریں کہیں اور اس کی نماز جنازہ ادا کی۔
تشریح:
(1) بعض حضرات کا خیال ہے کہ میت کے لواحقین کو وفات کی اطلاع نہیں دینی چاہیے، کیونکہ ایسا کرنا انہیں پریشان اور رنج و الم میں مبتلا کرنا ہے، پھر احادیث میں کسی کے مرنے کا اعلان کرنا منع آیا ہے۔ امام بخاری ؓ نے ثابت کیا ہے کہ اہل میت کو وفات کی اطلاع دینا جائز ہے۔ اگرچہ انہیں پریشانی تو ہوتی ہے لیکن مصلحت کا تقاضا ہے کہ ان کی پریشانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں مطلع کر دیا جائے تاکہ وہ ان کی تجہیز و تکفین اور تدفین وغیرہ کا بندوبست کریں۔ لوگوں کو اطلاع کرنے سے نماز جنازہ میں بکثرت لوگ شامل ہوں گے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی مغفرت کے لیے اللہ سے دعا کریں گے، نیز اس کی وصیت وغیرہ پر عمل کا بھی موقع میسر آئے گا۔ اس کے علاوہ متعدد ایسے احکام ہیں جن پر عمل اسی صورت ممکن ہے جب اس کے عزیز و اقارب کو وفات کی اطلاع کی جائے۔ اس کے متعلق حکم امتناعی کی وضاحت ہم آئندہ حدیث کے تحت کریں گے۔ (2) واضح رہے کہ نجاشی ملک حبشہ کے فرماں روا کو کہا جاتا تھا۔ جس نجاشی کا حدیث میں ذکر ہے اس کا نام ’’اصحمہ‘‘ تھا اور وہ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کے ہاتھوں مسلمان ہوا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ 9 ہجری کو جنگ تبوک سے واپس ہوئے تو آپ کو اس کے فوت ہونے کی بذریعہ وحی اطلاع کر دی گئی۔ چونکہ اہل مدینہ کے ساتھ اس کا دینی رشتہ تھا، علاوہ ازیں اس کے عزیز و اقارب بھی مدینہ میں آباد تھے، آپ نے دینی اور خونی رشتے داروں کو اس کے فوت ہونے کی اطلاع دی۔ امام بخاری ؓ نے اس اطلاع سے اپنا عنوان ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري: 151/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1214
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1245
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1245
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1245
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت نجاشی کے فوت ہونے کی خبر سنائی جس دن وہ فوت ہوئے تھے۔ پھر آپ عید گاہ تشریف لے گئے،صفیں درست کرنے کے بعد چار تکبیریں کہیں اور اس کی نماز جنازہ ادا کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) بعض حضرات کا خیال ہے کہ میت کے لواحقین کو وفات کی اطلاع نہیں دینی چاہیے، کیونکہ ایسا کرنا انہیں پریشان اور رنج و الم میں مبتلا کرنا ہے، پھر احادیث میں کسی کے مرنے کا اعلان کرنا منع آیا ہے۔ امام بخاری ؓ نے ثابت کیا ہے کہ اہل میت کو وفات کی اطلاع دینا جائز ہے۔ اگرچہ انہیں پریشانی تو ہوتی ہے لیکن مصلحت کا تقاضا ہے کہ ان کی پریشانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں مطلع کر دیا جائے تاکہ وہ ان کی تجہیز و تکفین اور تدفین وغیرہ کا بندوبست کریں۔ لوگوں کو اطلاع کرنے سے نماز جنازہ میں بکثرت لوگ شامل ہوں گے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی مغفرت کے لیے اللہ سے دعا کریں گے، نیز اس کی وصیت وغیرہ پر عمل کا بھی موقع میسر آئے گا۔ اس کے علاوہ متعدد ایسے احکام ہیں جن پر عمل اسی صورت ممکن ہے جب اس کے عزیز و اقارب کو وفات کی اطلاع کی جائے۔ اس کے متعلق حکم امتناعی کی وضاحت ہم آئندہ حدیث کے تحت کریں گے۔ (2) واضح رہے کہ نجاشی ملک حبشہ کے فرماں روا کو کہا جاتا تھا۔ جس نجاشی کا حدیث میں ذکر ہے اس کا نام ’’اصحمہ‘‘ تھا اور وہ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کے ہاتھوں مسلمان ہوا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ 9 ہجری کو جنگ تبوک سے واپس ہوئے تو آپ کو اس کے فوت ہونے کی بذریعہ وحی اطلاع کر دی گئی۔ چونکہ اہل مدینہ کے ساتھ اس کا دینی رشتہ تھا، علاوہ ازیں اس کے عزیز و اقارب بھی مدینہ میں آباد تھے، آپ نے دینی اور خونی رشتے داروں کو اس کے فوت ہونے کی اطلاع دی۔ امام بخاری ؓ نے اس اطلاع سے اپنا عنوان ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري: 151/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے، ان سے ابو ہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجاشی کی وفات کی خبر اسی دن دی جس دن اس کی وفات ہوئی تھی۔ پھر آپ نماز پڑھنے کی جگہ گئے۔ اور لوگوں کے ساتھ صف باندھ کر (جنازہ کی نماز میں) چار تکبیریں کہیں۔
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے اس کو برا سمجھا ہے، امام بخاری ؒ نے یہ باب لا کر ان کا رد کیا، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے خود نجاشی اور زید اور جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ کی موت کی خبریں ان کے لوگوں کو سنائیں، آپ ﷺ نے نجاشی پر نماز جنازہ پڑھی۔ حالانکہ وہ حبش کے ملک میں مرا تھا۔ آپ ﷺ مدینہ میں تھے تو میت غائب پر نماز پڑھنا جائز ہوا۔ اہلحدیث اور جمہور علماء کے نزدیک یہ جائز ہے اور حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے۔ یہ حدیث ان پر حجت ہے۔ اب یہ تاویل کہ اس کا جنازہ آنحضرت ﷺ کے سامنے لایا گیا تھا فاسد ہے، کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ دوسرے اگر سامنے بھی لایا گیا ہو تو آنحضرت ﷺ کے سامنے لایا گیا ہو گا نہ کہ صحابہ کے، انہوں نے تو غائب پر نماز پڑھی۔ (وحیدي) نجاشی کے متعلق حدیث کو مسلم و احمد و نسائی و ترمذی نے بھی روایت کیا ہے اور سب نے ہی اس کی تصحیح کی ہے۔ علامہ شوکانى ؒ فرماتے ہیں: وقد استدل بھذہ القصة القائلون بمشروعیة الصلوة علی الغائب عن البلد قال في الفتح وبذلك قال الشافعي وأحمدوجمهور السلف حتی قال ابن حزم لم یأت عن أحد من الصحابة منعه قال الشافعي علی المیت دعاء فکیف لا یدعی له وھو غائب أو في القبر۔(نیل الأوطار)یعنی جو حضرات نماز جنازہ غائبانہ کے قائل ہیں انہوں نے اسی واقعہ سے دلیل پکڑی ہے اور فتح الباری میں ہے کہ امام شافعی اور احمد اور جمہور سلف کا یہی مسلک ہے۔ بلکہ علامہ ابن حزم کا قول تو یہ ہے کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت نقل نہیں ہوئی۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جنازہ کی نماز میت کے لئے دعا ہے۔ پس وہ غائب ہو یا قبر میں اتاردیا گیا ہو، اس کے لیے دعا کیوں نہ کی جائے گی۔ نجاشی کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے معاویہ بن معاویہ لیثی ؓ کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا جن کا انتقال مدینہ میں ہوا تھا اور آنحضرت ﷺ تبوک میں تھے اور معاویہ بن مقرن اور معاویہ بن معاویہ مزنی کے متعلق بھی ایسے واقعات نقل ہوئے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے جنازے غائبانہ ادا فرمائے۔ اگرچہ یہ روایات سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں۔ پھر بھی واقعہ نجاشی سے ان کی تقویت ہوتی ہے۔ جو لوگ نماز جنازہ غائبانہ کے قائل نہیں ہیں وہ اس بارے میں مختلف اعتراض کرتے ہیں۔ علامہ شوکانی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں: والحاصل أنه لم یأت المانعون من الصلوة علی الغائب بشيء یعتد به الخ۔یعنی مانعین کوئی ایسی دلیل نہ لا سکے ہیں جسے گنتی شمار میں لایا جائے۔ پس ثابت ہوا کہ نماز جنازہ غائبانہ بلا کراہت جائز و درست ہے۔ تفصیل مزید کے لیے نیل الاوطار (جلد:3ص55، 56) کا مطالعہ کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) , Allah's Apostle (ﷺ) informed (the people) about the death of An-Najashi on the very day he died. He went towards the Musalla (praying place) and the people stood behind him in rows. He said four Takbirs (i.e. offered the Funeral prayer). ________