Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: It is desirable to wash (the dead body) for an odd number of times)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1267.
حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم آپ کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا:’’اسے تین یا پانچ یا اس سے زیادہ بار پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری مرتبہ کافور شامل کرلو۔ جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔ ‘‘چنانچہ ہم نے فارغ ہوکر آپ کو اطلاع دی تو آپ نے ہمیں اپنا تہبند دیا اور فرمایا: ’’اسے اس میں لپیٹ دو۔‘‘ ایوب راوی کہتے ہیں کہ مجھے حفصہ بن سیرین نے محمد بن سیرین کی طرح حدیث بیان کی۔حفصہ کی حدیث میں ہے: ’’اسے طاق عدد میں غسل دو۔‘‘ اور اس میں یہ بھی ہے: ’’اسے تین، پانچ یاسات مرتبہ غسل دو۔‘‘ اور اس میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے دائیں اعضاء اور وضو کی جگہوں سے غسل دیناشروع کرو۔‘‘ اس حدیث میں یہ تھا کہ حضرت ام عطیہ ؓ نے فرمایا:ہم نے اس کے بالوں میں کنگھی کرکے ان کی تین چوٹیاں بنا دیں۔
تشریح:
ابوداود کی روایت میں ہے: ’’۔۔ یا سات مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ غسل دو اگر تم اس کی ضرورت محسوس کرو۔‘‘(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3146) ان مختلف روایات سے معلوم ہوا کہ میت کو کم از کم تین مرتبہ ضرور غسل دینا چاہیے اور بوقت ضرورت پانچ، سات یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ طاق عدد کا لحاظ رکھتے ہوئے غسل دیا جا سکتا ہے۔ الغرض غسل دیتے وقت غسل دینے والے کی صوابدید پر موقوف ہے کہ کتنی مرتبہ اس میت کو غسل دینے کی ضرورت ہے۔ بہرصورت طاق عدد کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1222
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1254
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1254
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1254
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم آپ کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا:’’اسے تین یا پانچ یا اس سے زیادہ بار پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری مرتبہ کافور شامل کرلو۔ جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔ ‘‘چنانچہ ہم نے فارغ ہوکر آپ کو اطلاع دی تو آپ نے ہمیں اپنا تہبند دیا اور فرمایا: ’’اسے اس میں لپیٹ دو۔‘‘ ایوب راوی کہتے ہیں کہ مجھے حفصہ بن سیرین نے محمد بن سیرین کی طرح حدیث بیان کی۔حفصہ کی حدیث میں ہے: ’’اسے طاق عدد میں غسل دو۔‘‘ اور اس میں یہ بھی ہے: ’’اسے تین، پانچ یاسات مرتبہ غسل دو۔‘‘ اور اس میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے دائیں اعضاء اور وضو کی جگہوں سے غسل دیناشروع کرو۔‘‘ اس حدیث میں یہ تھا کہ حضرت ام عطیہ ؓ نے فرمایا:ہم نے اس کے بالوں میں کنگھی کرکے ان کی تین چوٹیاں بنا دیں۔
حدیث حاشیہ:
ابوداود کی روایت میں ہے: ’’۔۔ یا سات مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ غسل دو اگر تم اس کی ضرورت محسوس کرو۔‘‘(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3146) ان مختلف روایات سے معلوم ہوا کہ میت کو کم از کم تین مرتبہ ضرور غسل دینا چاہیے اور بوقت ضرورت پانچ، سات یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ طاق عدد کا لحاظ رکھتے ہوئے غسل دیا جا سکتا ہے۔ الغرض غسل دیتے وقت غسل دینے والے کی صوابدید پر موقوف ہے کہ کتنی مرتبہ اس میت کو غسل دینے کی ضرورت ہے۔ بہرصورت طاق عدد کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الوہاب ثقفی نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے، ان سے ام عطیہ ؓ نے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں کہ آپ تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دو یا اس سے بھی زیادہ، پانی اور بیرى کے پتوں سے اور آخر میں کافور بھی استعمال کرنا۔ پھر فارغ ہو کر مجھے خبر دے دینا۔ جب ہم فارغ ہوئے تو آپ کو خبر کر دی۔ آپ نے اپنا ازار عنایت فرمایا اور فرمایا کہ یہ اندر اس کے بدن پر لپیٹ دو۔ ایوب نے کہا کہ مجھ سے حفصہ نے بھی محمد بن سیرین کی حدیث کی طرح بیان کیا تھا۔ حفصہ کی حدیث میں تھا کہ طاق مرتبہ غسل دینا اور اس میں یہ تفصیل تھی کہ تین یا پانچ یا سات مرتبہ (غسل دینا) اور اس میں یہ بھی بیان تھا کہ میت کے دائیں طرف سے اعضاء وضو سے غسل شروع کیا جائے۔ یہ بھی اسی حدیث میں تھا کہ ام عطیہ ؓ نے کہا کہ ہم نے کنگھی کر کے ان کے بالوں کو تین لٹوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ عورت کے سر میں کنگھی کر کے اس کے بالوں کی تین لٹیں گوندھ کر پیچھے ڈال دیں۔ امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کا یہی قول ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um 'Atiyya Allah's Apostle (ﷺ) came to us and we were giving a bath to his (dead) daughter and said, "Wash her three, five or more times with water and Sidr and sprinkle camphor on her at the end; and when you finish, notify me." So when we finished, we informed him and he gave us his waist-sheet and told us to shroud her in it. Aiyub said that Hafsah (RA) narrated to him a narration similar to that of Muhammad in which it was said that the bath was to be given for an odd number of times, and the numbers 3, 5 or 7 were mentioned. It was also said that they were to start with the right side and with the parts which were washed in ablution, and that Um 'Atiyya also mentioned, "We combed her hair and divided them in three braids." ________