تشریح:
(1) طبرانی کی روایت میں مزید تفصیل ہے، حضرت ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے تمام خواتین کو ایک گھر میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ پھر حضرت عمر ؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا، انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قاصد بن کر آیا ہوں۔ مجھے نبی ﷺ نے تم سے چند ایک باتوں کے متعلق بیعت لینے کے لیے بھیجا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گی۔ اور آخر میں ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جوان اور پردہ نشین عورتوں کو عیدگاہ لے کر چلیں اور ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے منع فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکم امتناعی کی کئی اقسام ہیں۔ کچھ تو ایسی ہیں جن کا ارتکاب حرام ہے اور کچھ ایسی بھی ہیں جن پر عمل کرنا پسندیدہ اور بہتر نہیں۔ ایسی نہی تحریم کے بجائے تنزیہ اور کراہت کے معنی میں ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 186/3)
(2) مذکورہ حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے دور کی عورتوں کی کمال عقل ثابت ہوتی ہے کہ وہ باریک بینی کے ساتھ مراتب احکام کو جانتی تھیں۔ حضرت ام عطیہ ؓ نے مراتب نہی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اگرچہ شارع کو مطلوب یہی تھا کہ خواتین جنازوں کے ساتھ نہ نکلیں، البتہ جنازوں کے ساتھ چلنے کے بغیر اگر جنازے میں شرکت کا موقع مل جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے مسجد میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی نماز جنازہ پڑھی۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2252 (973)) حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ نماز جنازہ کے لیے کوشش سے شرکت کرنے کی فضیلت صرف مردوں کے لیے ہے، کیونکہ نہی کا تقاضا تحریم یا کم از کم کراہت ہے جبکہ فضیلت سے استحباب ثابت ہوتا ہے، لہذا یہ فضیلت مردوں کے ساتھ خاص ہے، عورتوں کے لیے فضیلت سے کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ (فتح الباري: 185/3)