تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے عنوان میں نحوها کے متعلق لکھا ہے کہ اس سے مراد باقی ماندہ وہ مقدس مقامات ہیں جن کی طرف رختِ سفر باندھنا جائز ہے، مثلا: حرم مکہ اور حرم مدینہ وغیرہ اور ایسے ہی مدافن انبیاء اور قبور اولیاء و شہداء ہیں، ان کے قرب و جوار سے رحمت و برکت کی امید کی جا سکتی ہے، کیونکہ اس میں حضرت موسیٰ ؑ کی اقتدا ہے۔ (فتح الباري:264/3) ہمارے نزدیک جہاں تک ارض مقدس اور سرزمین حرمین میں دفن ہونے کی تمنا ہے، یہ تو ہر مومن کے ایمان کا تقاضا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے اللہ کے حضور عرض کیا تھا: اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما اور مجھے موت تیرے رسول کے شہر (مدینہ) میں آئے۔ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث:1890) لیکن مدافن شہداء اور مقابر اولیاء کے قرب و جوار میں رحمت و برکت کی امید کرتے ہوئے دفن ہونے کی تمنا کرنا اس سے ہمیں اتفاق نہیں، کیونکہ اس سے شرک و بدعت کا چور دروازہ کھلتا ہے۔ ہمارے نزدیک اللہ کے ہاں مقبول ہونے کے لیے پہلے ایمان، پھر علم و عمل صالح نہایت ضروری ہے۔ ان کے بغیر کسی ارض مقدس میں دفن ہونے کی تمنا کرنا فضول اور بےکار ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب دجال آئے گا تو مدینہ منورہ منافقین سے بھرا ہو گا اور اسے تین جھٹکے لگیں گے جس سے تمام کافر اور منافق مدینے سے نکل کر دجال کے لشکر میں شامل ہو جائیں گے۔ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث:1881 و صحیح مسلم ، الفتن، حدیث:7390(2943)) (2) اس حدیث سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی بقعہ مبارکہ (بابرکت جگہ) کی حرمت و تقدیس ایمان و عمل کے بغیر نفع بخش ثابت نہیں ہو گی۔ ان کے بغیر ارض مقدس یا غیر ارض مقدس میں دفن ہونا برابر ہے، چنانچہ حضرت ابو درداء ؓ نے حضرت سلمان فارسی ؓ کو خط لکھا کہ آپ ہماری ارض مقدس میں آ جائیں تو انہوں نے جواب دیا کہ سرزمین انسان کی پاکیزگی کا ذریعہ نہیں بن سکتی، بلکہ نیک عمل انسان کو ضرور مقدس بنا دیتا ہے۔ (الموطأ للإمام مالك، الوصیة، حدیث:1524) لیکن ایمان و اعمال صالحہ کے ساتھ کسی بھی ارض مقدس میں دفن ہونے کی خواہش کرنا مطلوب عین ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس فرق کو واضح کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایک نہایت ہی جلیل القدر اور اللہ تعالیٰ کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ ؑ کے عمل اور تمنا کو پیش کیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مزید لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے اس خواہش کا اظہار اس لیے کیا تھا کہ انہیں حضرات انبیاء کا قرب حاصل ہو جائے جو بیت المقدس میں مدفون ہیں۔ اس رائے کو قاضی عیاض نے ترجیح دی ہے۔ البتہ علامہ مہلب نے فرمایا ہے کہ آپ نے جوار انبیاء میں دفن ہونے کی تمنا اس لیے کی تھی کہ میدان حشر کے قریب ہو جائیں اور اس مشقت سے بچ جائیں جو دور رہنے کی صورت میں پیش آ سکتی ہے، کیونکہ سرزمین شام ہی نے میدان محشر کی شکل اختیار کرنی ہے۔ (فتح الباري:264/3) (3) حافظ ابن حجر ؒ نے پتھر پھینکے کی قدر مسافت کے متعلق لکھا ہے کہ مجھے اتنا قریب کر دیا جائے کہ وہاں کھڑے ہو کر اگر پتھر پھینکا جائے تو ارض مقدس میں جا گرے، اس کا راز یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر ارض مقدس کو حرام کر دیا تھا اور انہیں وادی تیہ میں چالیس سال تک بھٹکنے رہنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اسی دوران میں حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے بھائی حضرت ہارون ؑ کی وفات ہوئی۔ چونکہ غلبہ جبارین کی وجہ سے ارض مقدس میں نہ جا سکے تھے، اس لیے آخر وقت تمنا کی کہ جتنا بھی ارض مقدس کے قریب ہو سکیں غنیمت ہے، کیونکہ قریب شے کا حکم بھی عین چیز کا حکم ہوتا ہے۔ (فتح الباري:264/3) (4) حضرت موسیٰ ؑ کے ملک الموت کو طمانچہ مارنے اور ان کی آنکھ پھوڑ دینے پر منکرین اور ملحدین کے جو اعتراضات ہیں انہیں ہم حدیث: 3407 کے فوائد میں ذکر کریں گے اور وہاں ان کا شافی جواب بھی دیا جائے گا۔ بإذن الله۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے پیش نظر مترجم کی مناجات حسب ذیل ہے:
آرزو ہے دل میں مجھے نصیب کب وہ دن ہو... مروں میں مدینے میں اور بقیع میرا مدفن ہو