تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث کو انقطاع کے ساتھ بیان کیا ہے، کیونکہ اس سے صرف حضرت ابن شہاب زہری کا ’’استنباط‘‘ بیان کرنا مقصود ہے، اصل اعتماد حضرت ابو ہریرہ ؓ کی مرفوع متصل حدیث پر ہے جسے انہوں نے اس کے بعد بیان کیا ہے۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ولد الزنا کی نماز جنازہ صحیح ہے۔ قتادہ کے علاوہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ ولد الزنا بچے کا جنازہ جائز ہے، کیونکہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہے۔ اسی طرح نومولود کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے، اگرچہ ناتمام ہی کیوں نہ ہو بشرطیکہ اس نے پیدائش کے وقت چیخ ماری ہو۔ (فتح الباري:282/3) (2) ہمارے نزدیک ناتمام بچے کے متعلق نماز جنازہ کی شرائط محل نظر ہیں کہ اگر وہ پیدائش کے وقت چیخ مارے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے بصورت دیگر نہ پڑھی جائے، کیونکہ جس روایات پر اس موقف کی بنیاد ہے وہ صحیح نہیں، جیسا کہ علامہ البانی ؒ نے اس کے متعلق تفصیل بیان کی ہے۔ (أحکام الجنائز، ص:105،104) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ناتمام بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔‘‘ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3180) واضح رہے کہ ناتمام سے مراد وہ بچہ ہے جس کے چار ماہ مکمل ہو چکے ہوں اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو، پھر وفات پا جائے۔ اگر اس مدت سے پہلے ساقط ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، کیونکہ وہ اس صورت میں میت کہلا ہی نہیں سکتا۔ حدیث میں ہے کہ بچہ جب اپنی ماں کے پیٹ میں چار ماہ کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ (صحیح البخاري، بدءالخلق، حدیث:3208) اس لیے ناتمام بچے پر نماز جنازہ کے لیے اس کے چیخ مار کر رونے کی شرط لگانا صحیح نہیں۔ والله أعلم۔