تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں شرط کا جواب ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا کو بوقت موت کلمہ توحید پڑھنے کو کہا تو ممکن ہے کہ اس وقت اس کا کلمہ توحید پڑھنا اسے فائدہ دے سکتا ہو اور یہ اس کی خصوصیت ہو، کیونکہ جب موت کا یقین ہو جائے تو کلمہ توحید کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اس کا جواب ذکر نہیں کیا تاکہ ایسے حالات سے دوچار انسان کو غوروفکر کرنے کا موقع دیا جائے۔ (فتح الباري:282/3 ،283) (2) اگر موت کی علامتیں ظاہر نہ ہوں اور نہ موت کا یقین ہی ہو تو موت کے وقت ایمان لانا فائدہ دے سکتا ہے، بصورت دیگر فائدہ مند ہونے کی توقع نہیں۔ ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو طالب کو نزع سے پہلے ایمان کی دعوت دی ہو۔ فرعون نے بھی موت کے آثار دیکھ کر کہا تھا: ’’میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اللہ صرف وہی ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں اس کا فرمانبردار ہوتا ہوں۔‘‘ (یونس90:10) فرعون کا یہ ایمان "إیمان البائس" تھا جو عذاب میں داخل ہونے کے بعد ظاہر ہوا۔ ایسے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس قوم یونس نے مشاہدہ عذاب کرتے ہی (عذاب میں داخل ہونے سے قبل) ایمان اختیار کر لیا تھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ﴾ (یونس98:10) ’’پھر کیا قوم یونس کے علاوہ کوئی ایسی مثال ہے کہ کوئی قوم (عذاب دیکھ کر) ایمان لائے تو اس کا ایمان اسے نفع دے؟‘‘ اسے تو اللہ تعالیٰ نے خود مستثنیٰ کر دیا ہے، لہذا اس قوم پر دوسروں کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ کلمہ فرعون میں ایمان صحیح کے علاوہ دوسرے احتمالات بھی تھے کیونکہ اس نے بنی اسرائیل کا حوالہ دیا تھا کہ میں اس اللہ پر ایمان لایا جس پر نبی اسرائیل ایمان لائے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس وقت خود اس کے ذہن میں اللہ کے متعلق حقیقی معرفت و توحید حاصل نہ ہوئی، نیز کلمہ فرعون کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ہے: ﴿آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿٩١﴾) (یونس91:10) ’’اب تو ایمان لاتا ہے جبکہ اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا۔‘‘ بہرحال موت کے قریب نزع کی حالت شروع ہونے سے پہلے تک ایمان لائے تو وہ معتبر ہوتا ہے۔ اگر نزع شروع ہو جانے کے بعد کلمہ توحید کہے تو اسے ایمان البائس کہا جاتا ہے جو جمہور کے نزدیک معتبر نہیں۔ والله أعلم۔