تشریح:
(1) اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبر پر کھجور کی تازہ شاخ رکھنا مسنون عمل ہے، کیونکہ ایسا کرنا صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تھا، دوسروں کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں، کیونکہ قبر پر پھول یا تازہ شاخ رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ (2) واضح رہے کہ اہل قبر کو عذاب میں تخفیف رسول اللہ ﷺ کی دعا اور سفارش کی بنا پر تھی، اس میں شاخوں کی تازگی کو کوئی دخل نہیں جیسا کہ حضرت جابر ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں دو قبروں کے پاس سے گزرا، مجھے معلوم ہوا کہ اس میں مدفون مردوں کو عذاب ہو رہا ہے، اس لیے میں نے پسند کیا کہ میری سفارش سے جب تک یہ ٹہنیاں تازہ رہیں ان سے عذاب کو دور کر دیا جائے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث:7518(3012)) یہ حدیث اس بات پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے کہ ان سے عذاب کا دور ہونا رسول اللہ ﷺ کی دعا اور سفارش کی وجہ سے تھا، اس میں کھجور کی شاخ اور اس کی تازگی کو کوئی دخل نہیں۔ اگر ان کی تازگی تخفیف کا سبب ہو تو جو لوگ گھنے باغات میں مدفون ہیں، انہیں سرے سے عذاب ہی نہیں ہونا چاہیے، حالانکہ یہ مفروضہ عقلا نقلا صحیح نہیں۔ پھر اگر اس کی تازگی ہی تخفیف عذاب کا باعث تھی تو کھجور کی شاخ کو چیر کر دو حصے کرنے کی ضرورت نہ تھی، بلکہ اسے توڑ کر دو حصے کر لیے جاتے تاکہ دیر تک عذاب میں تخفیف رہتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، تو اس کا واضح مطلب ہے کہ تخفیف عذاب صرف آپ کی دعا اور سفارش کی وجہ سے تھی۔ اگر شاخوں کی تازگی تخفیف عذاب کا باعث ہوتی تو دیگر اہل قبور کے ساتھ بھی یہ معاملہ کیا جاتا اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام ؓ بکثرت اس پر عمل پیرا ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا تو نقل تواتر سے یہ عمل ہم تک پہنچتا۔ جب ایسا ثابت نہیں تو اس کا واضح مطلب ہے کہ سرے سے یہ عمل ہی غیر مشروع ہے۔ حضرت بریدہ اسلمی ؓ کی وصیت کے متعلق ہم اپنی گزارشات پہلے بیان کر آئے ہیں۔ علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں کہ اکاس بیل یا دوسرے پھول وغیرہ قبروں پر رکھنا جائز نہیں، کیونکہ ایسا کرنا اسلاف سے ثابت نہیں۔ اگر یہ کام بہتر ہوتا تو وہ ہم سے سبقت لے جاتے۔ (أحکام الجنائز، ص:258، مسئلة:124)