Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The Lahd and the (straight) cut in the grave)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1366.
حضرت جابر ؓ بن عبداللہ سے روایت ہے،انھوں نےکہا:نبی کریم ﷺ شہدائے احد سے دو دو آدمیوں کو جمع کرتے۔ پھر فرماتے:’’ان میں سے کس کوقرآن زیادہ یاد ہے؟‘‘جب ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو اسے لحد میں آگے رکھتے اور فرماتے:’’میں قیامت کے دن ان لوگوں کے متعلق گوہی دوں گا۔‘‘پھر انہیں خون سمیت دفن کرنے کا حکم فرمایا اور انھیں غسل بھی نہ دیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں لحد کا ذکر ہے لیکن صندوقی قبر کا ذکر نہیں۔ ممکن ہے کہ دونوں شہیدوں کو لحد ہی میں رکھا گیا ہو۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ ایک کو لحد میں اور دوسرے کے لیے درمیان میں جگہ بنائی گئی ہو جسے صندوقی کہتے ہیں، کیونکہ قبر کی ایک جانب دو آدمیوں کو رکھنے کے لیے جگہ تیار کرنا مشکل کام ہے۔ (2) عنوان میں صندوقی قبر کا ذکر کیا تاکہ لحد کی افضیلت کو ثابت کیا جائے، کیونکہ اس کا ذکر حدیث میں ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ لحد ہمارے لیے اور شق ہمارے غیر کے لیے ہے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3208) اگر غیر سے مراد اہل کتاب ہیں تو ہمیں لحد ہی کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر اس سے مراد اہل مکہ ہیں تو معاملہ کچھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ دراصل مدینہ طیبہ میں بغلی اور صندوقی دونوں قبروں کا رواج تھا، چنانچہ حضرت ابو طلحہ انصاری ؓ لحد بنانے کے ماہر تھے جبکہ ابو عبیدہ بن جراح ؓ صندوقی قبر تیار کرتے تھے۔ اہل مکہ زمین نرم ہونے کی وجہ سے شق والی قبر تیار کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے لحد کو شق پر فضیلت دی۔ دراصل اس کا دارومدار زمین کی قسم پر ہے۔ اگر زمین نرم ہو تو شق بہتر ہے اور اگر زمین پختہ ہو تو لحد بنانا بہتر ہے۔ اسے رسول اللہ ﷺ نے پسند فرمایا ہے۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1316
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1353
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1353
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1353
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
قبر کھودنے کے بعد میت رکھنے کے لیے قبلے والی جانب ایک جگہ تیار کی جاتی ہے اسے لحد کہتے ہیں اور اگر درمیان میں جگہ تیار کی جائے تو اسے شق، یعنی صندوقی کہا جاتا ہے۔ سرزمین حجاز میں دونوں قسم کی قبریں تیار کی جاتی تھیں۔
حضرت جابر ؓ بن عبداللہ سے روایت ہے،انھوں نےکہا:نبی کریم ﷺ شہدائے احد سے دو دو آدمیوں کو جمع کرتے۔ پھر فرماتے:’’ان میں سے کس کوقرآن زیادہ یاد ہے؟‘‘جب ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو اسے لحد میں آگے رکھتے اور فرماتے:’’میں قیامت کے دن ان لوگوں کے متعلق گوہی دوں گا۔‘‘پھر انہیں خون سمیت دفن کرنے کا حکم فرمایا اور انھیں غسل بھی نہ دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں لحد کا ذکر ہے لیکن صندوقی قبر کا ذکر نہیں۔ ممکن ہے کہ دونوں شہیدوں کو لحد ہی میں رکھا گیا ہو۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ ایک کو لحد میں اور دوسرے کے لیے درمیان میں جگہ بنائی گئی ہو جسے صندوقی کہتے ہیں، کیونکہ قبر کی ایک جانب دو آدمیوں کو رکھنے کے لیے جگہ تیار کرنا مشکل کام ہے۔ (2) عنوان میں صندوقی قبر کا ذکر کیا تاکہ لحد کی افضیلت کو ثابت کیا جائے، کیونکہ اس کا ذکر حدیث میں ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ لحد ہمارے لیے اور شق ہمارے غیر کے لیے ہے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3208) اگر غیر سے مراد اہل کتاب ہیں تو ہمیں لحد ہی کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر اس سے مراد اہل مکہ ہیں تو معاملہ کچھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ دراصل مدینہ طیبہ میں بغلی اور صندوقی دونوں قبروں کا رواج تھا، چنانچہ حضرت ابو طلحہ انصاری ؓ لحد بنانے کے ماہر تھے جبکہ ابو عبیدہ بن جراح ؓ صندوقی قبر تیار کرتے تھے۔ اہل مکہ زمین نرم ہونے کی وجہ سے شق والی قبر تیار کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے لحد کو شق پر فضیلت دی۔ دراصل اس کا دارومدار زمین کی قسم پر ہے۔ اگر زمین نرم ہو تو شق بہتر ہے اور اگر زمین پختہ ہو تو لحد بنانا بہتر ہے۔ اسے رسول اللہ ﷺ نے پسند فرمایا ہے۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا ہمیں لیث بن سعد نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا۔ ان سے عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے‘ اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری ؓ نے بیان کیا کہ احد کے شہداء کو آنحضرت ﷺ ایک کفن میں دو دو کو ایک ساتھ کرکے پوچھتے تھے کہ قرآن کس کو زیادہ یاد تھا۔ پھر جب کسی ایک کی طرف اشارہ کردیا جاتا تو بغلی قبر میں اسے آگے کردیا جاتا۔ پھر آپ فرماتے کہ میں قیامت کو ان ( کے ایمان ) پر گواہ بنوں گا۔ آپ ﷺ نے انہیں بغیر غسل دئیے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) collected every two martyrs of Uhud (in one grave) and then he would ask, "Which of them knew the Qur'an more?" And if one of them was pointed out for him as having more knowledge, he would put him first in the Lahd. The Prophet (ﷺ) said, "I will be a witness on these on the Day of Resurrection." Then he ordered them to be buried with their blood on their bodies and he did not have them washed. ________