تشریح:
(1) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر والدین کی تعلیم و تربیت اور سوسائٹی کا اثرورسوخ بچے کی فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرے تو بچہ دین اسلام کا پیروکار اور اس کے احکام پر کاربند ہو گا، جیسا کہ بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے دودھ پینے کی محبت پر پیدا ہوتا ہے اور اسے اس محبت سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ فطرت کو دودھ سے تشبیہ دی گئی ہے، بلکہ خواب میں بھی اس کی یہی تعبیر کی جاتی ہے۔ (2) اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ ہر بچہ دین کا علم حاصل کر کے پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَاللَّـهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿٧٨﴾) (النحل78:16) ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حالت میں برآمد کیا ہے کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اور اس نے تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنا دیے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔‘‘ بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ ہر بچہ دین اسلام سے محبت، اس کی معرفت اور اقرار ربوبیت پر پیدا ہوتا ہے۔ اگر وہ خالی الذہن رہے اور اس کے معارض کوئی چیز اس کے سامنے نہ آئے تو وہ اقرار و محبت سے نہیں ہٹ سکے گا۔ (3) امام بخاری ؒ کے نزدیک فطرت سے مراد اسلام ہے جیسا کہ انہوں نے سورہ روم کی تفسیر میں اس کی صراحت کی ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، قبل الحدیث:4775) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے اپنا مسلک ثابت کیا ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اگر وہ بچپن میں مر جائے تو فطرت اسلام پر مرے گا اور جب اسلام پر موت آئے تو وہ جنتی ہو گا۔ اسلام میں توحید کو ایک رکن اعظم کی حیثیت حاصل ہے، ہر بچے کے دل میں اللہ کی معرفت اور توحید کی قابلیت ہوتی ہے، اگر اسے بری صحبت میسر نہ آئے تو موحد ہو گا، اس لیے بچے جنتی ہیں، خواہ مشرکین ہی کے کیوں نہ ہوں۔ والله أعلم۔