تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ مومن کے لیے ناگہانی موت نقصان دہ نہیں ہوتی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس ناگہانی موت کا ذکر ہوا تو آپ نے کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا، البتہ ایک دوسری حدیث میں آپ نے اس ناگہانی موت کو ناراضی کی پکڑ قرار دیا ہے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3310) کیونکہ انسان اس صورت میں ضروری وصیت نہیں کر سکتا اور نہ اسے توبہ کرنے کی مہلت ہی ملتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اچانک موت مومن کے لیے راحت اور بدکار کے لیے باعث افسوس ہے، لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے۔ دیکھیے: (الموسوعة الحديثية، مسند أحمد: 491/4) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ جسے اچانک موت آ جائے اس کی اولاد کو چاہیے کہ نیک اعمال سے اس کی تلافی کرے، لیکن ایسے نیک اعمال ہوں جس سے میت کو فائدہ پہنچ سکتا ہو اور نیابت ہو سکتی ہو۔ (فتح الباري:323/3) والله أعلم۔ (3) حدیث مذکور میں جن کی والدہ کے انتقال کا ذکر ہوا ہے وہ سعد بن عبادہ ؓ تھے۔ ان کی والدہ کا نام عمرہ تھا۔