تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کی وفات پر لوگ تین حصوں میں تقسیم ہو گئے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ کچھ لوگ دین اسلام سے مرتد ہو کر کفر کی طرف لوٹ گئے اور شرائع اسلام کا انکار کر دیا، یعنی انہوں نے بت پرستی اختیار کر لی۔ ٭ بعض لوگ ختم نبوت کے منکر ہو گئے۔ وہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کو بطور متنبی ماننے لگے اور ان کے پیروکار ہو گئے۔ ان دونوں گروہوں سے ابوبکر ؓ نے قتال کر کے ان کا خاتمہ کر دیا۔ ان سے قتال کرنے میں حضرت عمر ؓ بھی ان کے ہمنوا تھے۔ ٭ ایک تیسرا گروہ بھی تھا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرتا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد اس کے جانشین کو زکاۃ دینا ضروری نہیں۔ ان کے خلاف قتال کے متعلق حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کا اختلاف ہوا جس کا مذکورہ احادیث میں ذکر ہے۔ (2) دراصل یہ لوگ باغی تھے، مگر اس زمانے میں انہیں باغیوں کے نام سے یاد نہیں کیا جاتا تھا، کیونکہ وہ مرتدین کے گروہ میں شامل تھے۔ اس بنا پر انہیں بھی مرتدین میں شامل کیا گیا۔ حضرت علی ؓ کے دور میں چونکہ اس قسم کا اختلاط نہیں تھا، اس لیے انہیں باغی قرار دے کر ان سے جنگ کی گئی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے زکاۃ کو نماز پر قیاس کیا جس کا انکار بالاتفاق کفر ہے اور حضرت عمر ؓ نے عموم حدیث سے استدلال کیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے صرف قیاس ہی سے کام نہیں لیا تھا بلکہ حق اسلام کے الفاظ سے بھی اپنےموقف کو مضبوط کیا۔ اس وضاحت کے بعد حضرت عمر ؓ بھی مطمئن ہو گئے۔ (3) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے وجوب زکاۃ پر استدلال کیا ہے جو أظهر من الشمس ہے۔ (4) واضح رہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں تا وقتیکہ وہ اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز پڑھیں اور زکاۃ ادا کریں، جب یہ کام کرنے لگیں گے تو انہوں نے مجھ سے اپنے مال اور جان کو محفوظ کر لیا سوائے حق اسلام کے، پھر ان کا باطنی حساب اللہ کے سپرد ہو گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:25) یہ حدیث حضرت ابوبکر ؓ کو مستحضر نہ تھی، اگر یاد ہوتی تو وہ قیاس کے بجائے اسے پیش کرتے اور نہ یہ حدیث حضرت عمر ؓ ہی کے سامنے تھی وگرنہ وہ اس کے ہوتے ہوئے حدیث کے عموم سے فائدہ نہ اٹھاتے۔ عین ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جن سے یہ فیصلہ کن حدیث مروی ہے بحث و تکرار کے وقت وہاں موجود نہ ہوں، اگر وہاں موجود ہوتے تو اسے پیش کر کے اس نزاع کو فورا ختم کیا جا سکتا تھا۔ بہرحال زکاۃ ادا کرنا فرض ہے اور اس کا انکار کفر اور ادائیگی کے متعلق تاویل باعث جنگ و قتال ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’جو فرائض کو قبول کرنے سے انکار کر کے ارتداد کی طرف منسوب ہو اس کے خلاف قتال کرنا۔‘‘ (صحیح البخاري، استتابةالمرتدین، باب:3)